تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے سربراہ خادم حسین رضوی انتقال کر گئے ہیں۔ ان کی نمازِ جنازہ ہفتے کی صبح گیارہ بجے لاہور کے مینارِ پاکستان گراؤنڈ میں ادا کی جائے گی۔
تحریک لبیک پاکستان کے مرکزی عہدیدار پیر اعجاز اشرفی کے مطابق خادم حسین رضوی کو جمعرات کو طبیعت خراب ہونے پر لاہور کے سروسز اسپتال پہنچایا گیا تھا جہاں اُنہیں دل کا دورہ پڑا جو جان لیوا ثابت ہوا۔
خادم حسین رضوی کی میت اسپتال سے ان کے گھر منتقل کر دی گئی ہے۔ گھر کے باہر بڑی تعداد میں ٹی ایل پی کے کارکن اور ان کے عقیدت مند جمع ہونا شروع ہو گئے ہیں۔
خیال رہے کہ خادم حسین رضوی نے گزشتہ دنوں اسلام آباد اور راولپنڈی کے درمیان فیض آباد کے مقام پر فرانس کی جانب سے گستاخانہ خاکوں کے خلاف ہونے والے ٹی ایل پی کے دھرنے کی بھی قیادت کی تھی، اور اسی دوران اُنہیں بخار ہوا تھا۔
خادم حسین رضوی کون تھے؟
خادم حسین رضوی کا تعلق صوبہ پنجاب کے ضلع اٹک سے تھا۔ وہ 22 جون 1966 کو ضلع اٹک کے گاوں نکہ توت میں پیدا ہوئے۔
خادم حسین رضوی نے ضلع جہلم اور دینہ کے مدارس دینیہ سے حفظ و تجوید کی تعلیم حاصل کی۔ اُنہوں نے جامعہ نظامیہ رضویہ لاہور سے درس نظامی کی تکمیل کی۔
تحریک لبیک پاکستان کے ایک مرکزی عہدیدار نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ خادم حسین رضوی حافظ قرآن ہونے کے علاوہ شیخ الحدیث بھی تھے۔ اُنہیں اُردو زبان کے ساتھ فارسی زبان پر بھی عبور حاصل تھا۔
عہدیدار کے مطابق خادم حسین رضوی کو علامہ اقبال سے خصوصی لگاؤ تھا اور اُنہیں اقبال کے اشعار زبانی یاد تھے۔ خادم حسین ٹریفک کے ایک حادثے میں معذور ہو گئے تھے اور سہارے کے بغیر نہیں چل سکتے تھے۔
خادم حسین رضوی نے اپنی جذباتی تقریروں اور اندازِ بیان سے شہرت پائی تھی۔
خادم حسین رضوی بریلوی طبقہ فکر کے حامل تھے۔ وہ محکمہ اوقاف پنجاب کے تحت لاہور کی ایک مسجد کے خطیب بھی رہے۔ خادم حسین رضوی کو سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر کو مارنے والے ممتاز قادری کی حمایت میں بولنے کی وجہ سے محکمہ اوقاف پنجاب سے فارغ کر دیا گیا تھا۔
جس کے بعد انھوں نے ستمبر سنہ 2017 میں اپنی جماعت کی بنیاد رکھی اور اسی برس اِن کی جماعت نے تحریک لبیک پاکستان کے پلیٹ فارم سے لاہور کے حلقہ این اے 120 سے ضمنی انتخاب میں حصہ لیا۔ خادم حسین رضوی نے اصل شہرت نومبر 2017 میں اسلام آباد اور راولپنڈی کے درمیان فیض آباد چوک میں توہین رسالت کے قانون میں ترمیم کے خلاف دھرنا دے کر حاصل کی تھی۔
اِس دھرنے کے بارے مبصرین کا خیال ہے کہ اِس کی پشت پناہی پاکستان فوج کے خفیہ ادارے آئی ایس آئی نے کی تھی۔ دھرنے کے اختتام پر سیکیورٹی فورسز کی جانب سے دھرنے کے شرکاء میں رقوم بانٹنے کی ویڈیوز بھی سوشل میڈیا پر دستیاب ہیں۔ تاہم پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر اِس دھرنے میں فوج کے کردار کو تسلیم نہیں کرتی۔ اِس دھرنے سے متعلق سپریم کورٹ نے فوج کے اُن افسران کے متعلق کارروائی کرنے کی سفارش کی تھی، جہنوں نے اپنے حلف کی پاسدار نہیں کی۔
نومبر سنہ 2018 میں پنجاب پولیس نے خادم حسین رضوی سمیت تحریک لبیک پاکستان کی مرکزی قیادت کو تحفظ ناموس رسالت کے حق میں ملک بھر میں احتجاج کا اعلان کرنے پر گرفتار کیا تھا۔ جنہں بعد ازاں لاہور ہائیکورٹ کی جانب سے طبی بنیادوں پر ضمانت پر رہا کر دیا گیا تھا۔
خادم حسین رضوی اور اُن کی جماعت نے گزشتہ برس توہین رسالت کی مبینہ ملزمہ مسیحی خاتون آسیہ بی بی کی رہائی کے خلاف بھی پاکستان بھر میں احتجاجی مظاہرے کیے تھے۔ وہ آسیہ بی بی کی رہائی کے خلاف تھے۔ خادم حسین رضوی اور ٹی ایل پی کے مرکزی رہنما پیر افضل قادری دونوں مذہبی رہنما کے خلاف انسداد دہشت گردی کی عدالت میں مقدمات زیر سماعت بھی رہے۔ ان پر قومی اداروں کے بارے میں تضحیک آمیز الفاظ استعمال کرنے کا الزام تھا۔
خادم حسین رضوی کی وفات پر وفاقی وزیر مذہبی امور پیر نورالحق قادری، پاکستان مسلم لیگ قائداعظم کے رہنماوں چوہدری شجاعت حسین اور چوہدری پرویزالٰہی نے گہرے دکھ اور رنج کا اظہار کیا ہے۔
پاکستان علماء کونسل کے سربراہ علامہ طاہر محمود اشرفی نے علامہ خادم حسين رضوى كے انتقال پر تعزیت کا اظہار کیا۔