رسائی کے لنکس

تحریک لبیک کا فیض آباد میں دھرنا، فرانسیسی سفیر کو ملک بدر کرنے کا مطالبہ


ٹی ایل پی کے کارکن قیادت کے اعلان کے بعد منتشر ہو گئے ہیں۔
ٹی ایل پی کے کارکن قیادت کے اعلان کے بعد منتشر ہو گئے ہیں۔

پاکستان کی مذہبی و سیاسی جماعت تحریک لبیک پاکستان نے فرانس میں پیغمبر اسلام کے خاکوں کی اشاعت پر ایک بار پھر ملک کے دارالحکومت اسلام آباد کے مرکزی داخلی راستے فیض آباد پر دھرنا دے دیا ہے۔ مظاہرین کا مطالبہ ہے کے حکومتِ پاکستان فوری طور پر فرانسیسی سفیر کو ملک بدر کرے۔

تحریک لبیک پاکستان کے کارکنوں نے اتوار کو راولپنڈی میں احتجاجی ریلی نکالی جس میں ہزاروں افراد شریک ہوئے۔ اس دوران پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپیں بھی ہوئیں اور کئی مظاہرین کو حراست میں لیا گیا۔ پولیس نے مظاہرین پر آنسو گیس کی شیلنگ بھی کی۔

تاہم اتوار کو رات گئے تحریک لبیک کے کارکن رکاوٹوں کے باوجود فیض آباد پہنچنے پر کامیاب ہو گئے اور دھرنا دے دیا۔

فیض آباد پہنچنے کے بعد مظاہرین نے اپنا مطالبہ دوہراتے ہوئے فرانسیسی سفیر کو ملک بدر کرنے جب کہ فرانس سے پاکستانی سفیر کو واپس بلانے پر اصرار کیا۔

تحریک لبیک کے دھرنے کے بعد جڑواں شہروں اسلام آباد اور راولپنڈی کے درمیان آمدورفت شدید متاثر ہو رہی ہے جب کہ کئی علاقوں میں انتظامیہ کی جانب سے موبائل فون سروس بھی بند کر دی گئی ہے۔

تحفظ ناموس رسالت کے نام سے یہ احتجاجی ریلی تحریک لبیک کے سربراہ خادم حسین رضوی کے اعلان پر فرانس کے میگزین میں پیغمبر اسلام کے خاکوں کی اشاعت اور فرانس کے صدر کے اسلام سے متعلق بیان کے خلاف نکالی گئی۔

خادم رضوی اس دھرنے میں تاحال شامل نہیں ہوئے تاہم تحریک کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ خادم رضوی کی واضح ہدایات ہیں کہ مطالبات پورے ہونے تک احتجاج جاری رکھا جائے۔

اتوار کی سہ پہر راولپنڈی میں لیاقت باغ کے مقام پر جب کارکن جمع ہونا شروع ہوئے تو پولیس نے انہیں منتشر کرنے کی کوشش کی جو جھڑپوں میں بدل گئی۔ پولیس اور کارکنوں کے درمیان تصادم اور آنسو گیس کی شیلنگ کئی گھنٹے جاری رہی تاہم بارش کے باوجود پولیس مظاہرین کو منتشر کرنے میں ناکام رہی۔

تحریک لبیک نے 2017 اور 2018 میں بھی فیض آباد میں دھرنے دیے تھے۔ (فائل فوٹو)
تحریک لبیک نے 2017 اور 2018 میں بھی فیض آباد میں دھرنے دیے تھے۔ (فائل فوٹو)

رات گئے مظاہرین مری روڈ سے رکاوٹیں ہٹاتے ہوئے جڑواں شہروں کے سنگم فیص آباد انٹرچینج پہنچ گئے۔

خیال رہے کہ 2017 کے آخر میں تحریک لبیک نے فیض آباد انٹرچینج کے مقام پر تین ہفتے تک دھرنا دیا تھا جس سے جڑواں شہروں کے معمولات متاثر رہے۔

فیض آباد پہنچنے پر اسلام آباد کی پولیس نے مظاہرین پر آنسو گیس اور واٹر کینن کا استعمال کیا اور مظاہرین کو منتشر کرنے کی یہ کوششیں وقفے وقفے سے جاری ہیں۔

تاہم مظاہرین کی بڑی تعداد فیض آباد انٹرچینج کے مقام پر موجود ہے جنہیں ان کے قائدین لاؤڈ اسپیکر پر ہدایات دے رہے ہیں۔

لاؤڈ اسپیکر پر خطاب کرنے والے رہنما بار بار اپنے مطالبات دوہرا رہے ہیں کہ حکومت فرانس کے سفیر کو ملک بدر کرے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ اس وقت تک واپس نہیں جائیں گے جب تک حکومت ان کے مطالبات تسلیم نہیں کرتی۔

راولپنڈی پولیس نے اس ریلی کے شرکا کو جمع ہونے سے روکنے کے لیے متعدد اقدامات کیے تھے۔ شہر کے داخلی راستوں پر ناکوں کے علاوہ فیض آباد سے ملحقہ راستوں کو کنٹینر لگا کر بند کیا گیا تھا۔

مظاہرین اور پولیس کے درمیان جھڑپیں بھی ہوئی ہیں۔
مظاہرین اور پولیس کے درمیان جھڑپیں بھی ہوئی ہیں۔

پتھراؤ، لاٹھی چارج اور شیلنگ کے باعث متعدد کارکن اور پولیس اہلکاروں کے زخمی ہونے کی بھی اطلاعات ہیں۔

قومی ذرائع ابلاغ پر ریلی کو نہ دیکھائے جانے پر مظاہرین کی جانب سے صحافیوں کو بھی کوریج کی اجازت نہیں دی جا رہی اور بعض صحافیوں نے ہراساں کیے جانے کی شکایات بھی کی ہیں۔

اسلام آباد اور راولپنڈی کی ضلعی انتظامیہ کی جانب سے متبادل راستوں پر ٹریفک کو منتقل کرنے کے اعلانات سامنے آئے ہیں تاہم فیض آباد سے ملحقہ علاقوں کے شہری تقریباً محصور ہو کر رہ گئے ہیں۔

اسلام آباد کے ڈپٹی کمشنر حمزہ شفقات نے کہا ہے کہ اسلام آباد ایکسپریس وے زیرو پوائنٹ سے کھنہ پل تک بند رہے گی۔

پیر کو اپنی ایک ٹوئٹ میں ڈپٹی کمشنر اسلام آباد نے شہریوں سے متبادل راستے اختیار کرنے کی بھی اپیل کی ہے جب کہ اُن کا کہنا ہے کہ وہ یہ راستہ کھلوانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ حکومت نے تحریک لبیک کے ماضی کو دیکھتے ہوئے غلط اندازہ لگایا اور صحیح طریقہ کار نہیں اپنایا۔

تجزیہ نگار حسن عسکری کہتے ہیں کہ تحریک لبیک نے مذہبی معاملات کو ابھار کر گزشتہ عام انتخابات میں خاصے ووٹ حاصل کیے اور ان کی قیادت کے پاس اس قسم کے مذہبی معاملات کے علاوہ کوئی ایجنڈا نہیں ہے جس سے وہ خود کو مؤثر ثابت کر سکیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ حکومت کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ خود مذہب کارڈ استعمال کرتی ہے اور دوسری جماعتوں سے کہتی ہے کہ مذہبی معاملات کو نہ اچھالا جائے۔

حسن عسکری کہتے ہیں کہ حکومت مظاہرین کے خلاف اس لیے سخت اقدام اُٹھانے سے گریز کرے گی کیوں کہ اسے یہ خدشہ ہو گا کہ کہیں اپوزیشن جماعتیں اس دھرنے کی حمایت نہ کر دیں۔

صحافی مبشر زیدی کہتے ہیں کہ تحریک لبیک کا موجودہ احتجاج 2017 کی صورتِ حال کو دوہرا رہا ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ اسی جماعت نے گزشتہ ہفتے اسی مطالبے پر کراچی میں احتجاج کیا جو کہ پرامن طور احتتام پذیر ہو گیا تاہم راولپنڈی میں انتظامیہ نے مناسب طریقہ کار نہیں اپنایا اور صورتِ حال اب بگڑ گئی ہے۔

مبشر زیدی کہتے ہیں کہ عمران خان نے 2017 کے تحریک لبیک کے احتجاج کی حمایت کی تھی لہذا سینئر وفاقی وزرا کی سنجیدہ کوشش سے معاملہ حل کیا جاسکتا ہے۔

حسن عسکری کہتے ہیں کہ ابھی معاملات زیادہ نہیں بگڑے لیکن جوں جوں وقت گزرتا جائے گا صورتِ حال خراب ہونے کا اندیشہ ہے لہذٰا حکومت بات چیت سے یہ احتجاج ختم کرائے۔

حسن عسکری کہتے ہیں کہ حکومت کو اس معاملے کو ابتدائی سطح پر طے کرنا چاہیے تھا جو کہ حکومتی سیاسی کمزوری ثابت کرتی ہے۔

حکومتِ پاکستان کی جانب سے تاحال تحریک لبیک پاکستان کے مطالبات پر کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا۔

خیال رہے کہ 2017 میں تحریک لبیک پاکستان نے ختم نبوت سے متعلق حلف نامے میں مجوزہ تبدیلیوں کے خلاف فیض آباد میں کئی روز تک دھرنا دیا تھا۔ اس دوران اس وقت پاکستان میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت تھی اور وفاقی وزیر زاہد حامد کے استعفے کے باوجود دھرنا جاری رہا۔

بعدازاں خفیہ ایجنسی انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے اس وقت کے ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل فیض حمید سمیت مبینہ طور پر فوج کی ضمانت کے بعد دھرنا ختم ہوا تھا۔

انتظامیہ کی جانب سے شہر کے داخلی راستوں پر کنٹینر لگا دیے گئے تھے۔
انتظامیہ کی جانب سے شہر کے داخلی راستوں پر کنٹینر لگا دیے گئے تھے۔

دھرنے کے باعث شہریوں کو درپیش مشکلات سے متعلق کیسز کی سماعت کے دوران اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی اور بعدازاں سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے دھرنے میں فوج کی مداخلت کے الزامات پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔

فیض آباد دھرنے سے متعلق کیس کے فیصلے میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے وزارتِ دفاع اور آرمی چیف کو ہدایت کی تھی کی وہ سیاسی معاملات میں مداخلت کرنے والے اہلکاروں کے خلاف کارروائی کریں۔

فیصلے میں ایک فوجی افسر کی جانب سے مظاہرین میں رقوم تقسیم کرنے سے متعلق ویڈیو کا بھی تذکرہ کیا گیا تھا۔

لیکن پاکستانی فوج ان الزامات کی تردید کرتی رہی ہے۔ فوج کا یہ موٌقف رہا ہے کہ وہ سیاسی معاملات میں مداخلت نہیں کرتی، تاہم سول حکومت کے ساتھ آئین کے تحت تعاون کرنے کی پابند ہے۔

XS
SM
MD
LG