سعودی عرب کے مقتول صحافی جمال خشوگی کی منگیتر نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ خشوگی قتل کیس میں ملوث افراد کو سزائے موت دے دی گئی تو حقائق پر پردہ پڑ جائے گا اور اصل مجرم بچ جائیں گے۔
خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق جمال خشوگی کی اہلیہ آتش چنگیز نے سعودی عدالت کی جانب سے جمال خشوگی کے قتل میں ملوث 5 افراد کو سزائے موت اور دیگر تین کو قید کی سزائیں سنائے جانے پر عدم اطیمنان کا اظہار کیا ہے۔
آتش چنگیز نے کہا ہے کہ بند کمرے میں ہونے والا ٹرائل غلط اور غیر منصفانہ ہے۔ ان کے بقول ٹرائل سے یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ قاتلوں نے جمال خشوگی کو کیوں قتل کیا؟
خشوگی کی منگیتر کا کہنا تھا کہ "اگر ان افراد کو کوئی بیان ریکارڈ کرانے یا وضاحت کا موقع نہ دیا گیا تو ہمیں یہ کبھی بھی پتا نہیں چلے گا کہ خشوگی کو کیوں مارا گیا۔"
انہوں نے کہا کہ وہ عالمی اداروں اور تنظیموں سے مطالبہ کرتی ہیں کہ وہ اس عدالتی فیصلے کی مذمت کریں اور سزائے موت پر عمل درآمد رکوائیں۔ کیوں کہ یہ حقائق چھپانے کی ایک اور کوشش ہے۔
ترکی نے بھی جمال خشوگی قتل کیس کے فیصلے پر عدم اطیمنان کا اظہار کیا تھا۔
منگل کو ترکی کے ڈائریکٹر کمیونیکشن فحرطین التون نے کہا کہ یہ فیصلہ انصاف کے تقاضوں کے برخلاف اور ہر ذی شعور شخص کے لیے باعث شرم ہے۔
التون نے اپنی ایک ٹوئٹ میں کہا کہ بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کو اس مقدمے کا پیچھا کرنا چاہیے، جب تک اس قتل کے اصل کردار سامنے نہیں آ جاتے۔
ان کا کہنا تھا کہ ایک قونصل خانے میں خشوگی کا قتل بین الاقوامی سفارتی آداب اور روایات کی کھلی خلاف ورزی تھی۔ لہٰذا جب تک اس معاملے میں انصاف نہیں ہو جاتا، ترکی اس کی پیروی کرتا رہے گا۔
خیال رہے کہ گزشتہ سال دو اکتوبر کو ترکی کے شہر استنبول میں سعودی قونصل خانے میں ہونے والے اس قتل پر مغربی ممالک، امریکہ اور اس کی ایجنسیاں سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کو اس کا ذمہ دار ٹھہراتی رہی ہیں۔ البتہ سعودی حکام ان الزامات کی تردید کرتے رہے ہیں۔
تاہم رواں سال ستمبر میں سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کا ایک بیان سامنے آیا تھا۔ جس میں انہوں نےکہا تھا کہ وہ خود احتسابی پر یقین رکھتے ہیں۔ اور اس قتل کی اخلاقی ذمہ داری قبول کرتے ہیں کیوں کہ یہ ان کے دور حکومت میں ہوا ہے۔
سعودی نژاد امریکی شہری جمال خشوگی کھل کر سعودی عرب کے شاہی خاندان پر تنقید کرتے تھے۔ انہیں دو اکتوبر 2018 کو اس وقت قتل کر دیا گیا تھا جب وہ اپنی منگیتر کے ہمراہ استنبول میں سعودی قونصل خانے میں کچھ دستاویزات حاصل کرنے گئے تھے۔
جمال خشوگی کے قتل کے بعد سعودی عرب اور ترکی کے تعلقات بھی سرد مہری کا شکار ہو گئے تھے۔ ترکی نے واقعے میں ملوث ملزمان کو اس کے حوالے کرنے کا مطالبہ کیا تھا جسے سعودی عرب نے مسترد کر دیا تھا۔
جمال خشوگی کے قتل پر سعودی حکام کی جانب سے متضاد بیانات سامنے آتے رہے ہیں۔ تاہم قتل سے متعلق شواہد سامنے آنے کے بعد بالآخر سعودی عرب نے تسلیم کیا تھا کہ خشوگی قونصل خانے میں تفتیش کے دوران بعض سعودی اہلکاروں کے ہاتھوں مارے گئے تھے۔