31 مہینوں میں شمالی کوریا اور جنوبی کوریا کے درمیان ہونے والی یہ پہلی میٹنگ تھی جو خفیہ نہیں تھی۔ تاہم جنوبی کوریا کے وزیرِ خارجہ، Kim Sung-hwan کا رویہ محتاط ہے۔ وہ یہ نہیں چاہتے کہ اس میٹنگ سے کسی بڑی تبدیلی کی توقع وابستہ کر لی جائے۔ انھوں نے کہا کہ ’’پیر کے روز سیول میں ایک ریڈیو پروگرام میں انھوں نے کہا کہ انڈونیشیا میں آسیان کے ملکوں کے اجتماع کے دوران شمالی اور جنوبی کوریا کے سفارتی رابطے سے، تعلقات میں کسی فوری پیش رفت کی توقع نہیں کرنی چاہیئے۔ تا ہم، انھوں نے کہا کہ جمعے کے روز بالی میں جو بات چیت ہوئی، اس سے دونوں کوریاؤں کے درمیان تعلقات میں کچھ تحریک ضرور پیدا ہوئی ہے۔‘‘
اس اچانک میٹنگ کے فوراً بعد، امریکی وزیرِ خارجہ ہلری کلنٹن نے اعلان کیا کہ شمالی کوریا کے نائب وزیرِ خارجہ ، Kim Kye-gwan کو نیو یارک آنے کی دعوت دی گئی ہے۔
سیول کی ڈانگ گک یونیورسٹی میں شمالی کوریا کے امور کے ماہر، Kim Yong-hyun کہتےہیں کہ ایسا لگتا ہے کہ بالی میں سفارتکاری کے ذریعے، نیوکلیئر تخفیف اسلحہ کے وہ مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کی تیاریاں ہو رہی ہیں جو 2008ء میں ختم ہو گئے تھے۔
کِم کہہ رہے ہیں کہ بالی کے مذاکرات چھ فریقی مذاکرات کو صحیح راستے پر واپس لانے کی جانب ایک قدم ہیں۔ تاہم ، ایک اور تجزیہ کار کے خیال میں یہ قدم غلط سمت میں اٹھایا گیا ہے۔ Balbina Hwang علاقائی سیکورٹی اسپیشلسٹ ہیں اور آ ج کل جارج ٹاؤن یونیورسٹی اور واشنگٹن کی نیشنل ڈفینس یونیورسٹی میں پروفیسر ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’’ظاہر ہے کہ وہ پھر اسی ماڈل پر واپس جا رہے ہیں جو انھوں نے شروع کیا تھا اور جو کبھی تکمیل کو نہیں پہنچا۔ میرے خیال میں کوئی وجہ نہیں کہ وہ پھر اسی ماڈل پر واپس جائیں۔ لیکن اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان میں تخلیقی اپج کا فقدان ہے، اور اس سے بھی زیادہ یہ کہ سیول یا واشنگٹن دونوں میں سے کسی بھی جگہ ایسی قیادت موجود نہیں ہے جو شمالی کوریا کے ساتھ صحیح معنوں میں پیش رفت کے لیے کوئی اقدام کر سکے۔‘‘
دونوں کوریاؤں اور امریکہ کے علاوہ، چھ فریقی مذاکرات میں چین، روس اور جاپان بھی شامل تھے۔
مذاکرات کا آخری راؤنڈ ناکام ہونے کے بعد، شمالی کوریا نے نیوکلیئر ہتھیاروں کا ایک اور ٹیسٹ کیا، اور یورینیم افژودہ کرنے کے ایک نئے پلانٹ کا افتتاح کیا جس کے ذریعے وہ ایک اور طریقے سے ایٹم بم تیار کر سکتا تھا۔
Hwang کہتی ہیں کہ اگر چھہ فریقی مذاکرات دوبارہ شروع ہو جائیں، تو بھی اس بات کا امکان بہت کم ہے کہ ان کا کوئی نتیجہ نکلے گا۔ ان کے مطابق ’’ہر کوئی یہ سمجھ رہا ہے کہ گویا کوئی بہت بڑا واقعہ ہو گیا ہے۔ ہر کوئی ساتھ بیٹھے گا اور چھہ فریقی مذاکرات پھر شروع ہو جائیں گے۔ ایسے کوئی آثار نہیں ہیں کہ شمالی کوریا اپنے موقف سے ہٹنے کو تیار ہے۔ مجھے ایسی کوئی علامتیں بھی نظرنہیں آتیں کہ امریکہ اور جنوبی کوریا بھی اپنے مضبوط موقف میں تبدیلی لانے کو تیار ہوں گے۔ اگر مذاکرات شروع ہو بھی گئے، تو میرے نزدیک یہ کوئی اہم بات نہیں ہوگی۔‘‘
جنوبی کوریا کے روزنامے Joong Ang نے اپنے پیر کے اداریے میں یہ دلیل دی کہ اگرچہ پچھلے مذاکرات ناکام ہو گئے تھے، لیکن کوئی اور بین الاقوامی فورم دستیاب نہیں ہے جس کے ذریعے پُر امن طریقے سے شمالی کوریا کو اپنے نیوکلیر ہتھیاروں کے پروگراموں کو ختم کرنے پر آمادہ کیا جا سکے۔
چھہ فریقی مذاکرات ختم ہو جانے کے بعد، دونوں کوریاؤں کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہوا۔ 2010ء میں جنوبی کوریا نے شمالی کوریا پر Yellow Sea میں اس کا جہاز ڈبونے کا الزام عائد کیا۔ شمالی کوریا نے سمندر کے اسی حصے میں جنوبی کوریا کے ایک جزیرے پر توپوں سے گولہ باری کی۔ جنوبی کوریا نے بار بار کہا ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں بہتری کے لیے ضروری ہے کہ شمالی کوریا اپنی اشتعال انگیز کارروائیوں کے لیے معافی مانگے۔
جنوبی کوریا کے وزیرِ خارجہ نے پیر کے روز کہا کہ حکومت کا بدستور یہ موقف ہے کہ شمالی کوریا نے گذشتہ سال جو کارروائیاں کی تھیں، جن کے نتیجے میں جنوبی کوریا کے 50 باشندے ہلاک ہو گئے تھے، ان کی روشنی میں ضروری ہے کہ شمالی کوریا ذمہ دارانہ اقدامات کرے۔ لیکن عہدے دار کہتے ہیں کہ اگر شمال کی طرف سے معذرت پیش نہیں کی جاتی، تو بھی جنوبی کوریا بین الا قوامی سفارتکاری کی بحالی میں رکاوٹ نہیں ڈالے گا کیوں کہ اس معاملے میں بہت کچھ داؤں پر لگا ہوا ہے۔
ٹیکنیکل نقطۂ نظر سے شمالی اور جنوبی کوریا آج بھی حالتِ جنگ میں ہیں۔ 1950ء کی دہائی کے شروع میں ان کے درمیان ہونے والی تین سالہ تباہ کن خانہ جنگی امن سمجھوتے پر نہیں بلکہ جنگ بندی پر ختم ہوئی تھی۔