رسائی کے لنکس

سوات میں ٹی ٹی پی کی سرگرمیاں، پولیس کا مزید 18 چوکیوں کے قیام کا اعلان 


پولیس چوکیوں کے قیام کا اعلان ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب مقامی سطح پر شدت پسندوں کی سرگرمیوں سے متعلق تشویش پائی جاتی ہے۔
پولیس چوکیوں کے قیام کا اعلان ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب مقامی سطح پر شدت پسندوں کی سرگرمیوں سے متعلق تشویش پائی جاتی ہے۔

خیبر پختونخوا کی حکومت نے سوات کے علاقے مٹہ میں قیامِ امن کے لیے 18 پولیس چوکیاں قائم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اس علاقے سے حال ہی میں تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی مبینہ سرگرمیوں کی اطلاعات تواتر سے سامنے آ رہی ہیں۔

صوبائی حکومت کے اتوار کو جاری بیان کے مطابق خیبر پختونخوا کے وزیرِ اعلیٰ محمود خان نے دورۂ سوات کے موقعے پر ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مٹہ کے علاقے میں بہادر بانڈہ سے لے کر تیرات درہ تک پولیس کی 18 چوکیاں قائم کی جائیں گی۔ اس علاقے میں گشت کے لیے پولیس کی موبائل ٹیموں کے اہل کاروں کا بندوبست بھی کیا جائے گا۔

وزیر اعلیٰ کا کہنا تھا کہ اگر ان سیکیورٹی اقدامات کے لیے کسی یونیورسٹی یا سڑک کا فنڈ بھی لگانا پڑا تو وہ اس سے بھی گریز نہیں کریں گے کیوں کہ ان کے بقول امن ہوگا تو ترقیاتی کام ہوں گے۔

سوات کی تحصیل مٹہ میں پولیس چوکیاں قائم کرنے کا اعلان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے ،جب اس علاقے میں اگست کے اوائل سے کالعدم شدت پسند تنظیم تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے جنگجوؤں کی مبینہ سرگرمیوں کی اطلاعات موصول ہوتی رہی ہیں۔

ٹی ٹی پی کی سرگرمیوں کے خلاف مقامی سطح پر احتجاجی مظاہرے بھی کیے گئے ۔ اس دوران ٹی ٹی پی نے دہشت گردی کے متعدد واقعات کی ذمے داری بھی قبول کی۔

اس دوران ایک نجی اسکول کی گاڑی پر فائرنگ اور مٹہ میں ایک وکیل کو گھات لگا کر قتل کر نے کے دو واقعات کو خیبر پختونخوا کے انسپکٹر جنرل پولیس معظم جاہ انصاری نے ذاتی عداوت کا نتیجہ قرار دیا تھا۔

مقامی افراد کی جانب سے علاقے میں کئی مواقع پر شدت پسندوں کی سرگرمیوں سے متعلق تشویش کا اظہار کیا جاتا رہا ہے اور امن وامان کی بگڑتی ہوئی صورتِ حال میں بہتری کے لیے اقدامات کرنے کے مطالبات تواتر سے سامنے آتے رہے ہیں۔

وزیرِ اعلیٰ محمود خان نے دو ماہ سے زائد عرصے کے بعد اپنے آبائی علاقے مٹہ کا دورہ کیا تھا، جہاں وہ علاقے کے معززین اور اپنی جماعت پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی)کے مقامی رہنماؤں سے ملے تھے۔

اس دوران انہیں آئی جی پولیس نے امن و امان کی مجموعی صورتِ حال کے بارے میں بریفنگ بھی دی تھی۔

پولیس کا کہنا ہے کہ سوات کے بعض علاقوں خاص طور پر مٹہ میں موجود مبینہ عسکریت پسند وہاں سے جاچکے ہیں ہو سکتا ہے کہ وہ سرحد پار افغانستان واپس چلے گئے ہوں۔ تاہم اس دعوے کی غیر جانبدار ذرائع سے تصدیق نہیں ہوسکی ۔

’چوکیاں بنانے کے بجائے سرحد محفوظ بنائی جائے‘

وزیرِ اعلیٰ محمود خان کے تحصیل مٹہ میں 18 پولیس چوکیوں کے قیام کے اعلان پر ردِ عمل میں عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے رہنما زاہد خان کا کہنا تھا کہ چوکیاں قائم کرنے کے بجائے پاکستان افغانستان کی سرحد کو محفوظ بنانا چاہیے ۔

زاہد خان کہتے ہیں کہ سوات کے علاقے افغانستان سے ملحق نہیں ہیں لہٰذا یہاں عسکریت پسند باجوڑ اور دیر میں پاکستان افغانستان کی سرحدیں عبور کرکے مبینہ طور پر پاکستان میں داخل ہوئے تھے۔

انہوں نے کہا کہ جب ان مبینہ عسکریت پسندوں کے سوات آنے کے خلاف شدید عوامی ردِ عمل سامنے آیا تو یہ عسکریت پسند یہاں سے چلےگئے ہیں۔

پاڑہ چنار میں ٹی ٹی پی کے خلاف امن مارچ

دوسری جانب خیبر پختونخوا کے مختلف علاقوں بالخصوص وادیٔ سوات اور افغانستان سے ملحقہ قبائلی اضلاع میں ٹی ٹی پی کے عسکریت پسندوں کی مبینہ موجودگی کے خلاف امن مارچ اور احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔

اتوار کو قبائلی ضلع کرم کے مرکزی انتظامی شہر پاڑہ چنار میں مقامی افراد نے امن مارچ میں شرکت کی جس میں ضلعے بھر کی سیاسی، سماجی اور مذہبی تنظیموں کے کارکن شریک تھے۔ امن مارچ میں شامل شرکا نے سفید جھنڈے اور بینرز اٹھائے ہوئے تھے اور قیامِ امن کے لیے نعرے لگا ئے۔

اس موقعے پر قبائلی عمائدین کا کہنا تھا کہ قیام امن کے لیے حکومت کے ساتھ ہیں اور حکومت دہشت گردی کے خاتمے کے لیے اپنا کردار ادا کرے۔

XS
SM
MD
LG