شامی صدر بشار الاسد کی حکومت کا حکمت عملی کا حامل فوجی اڈا استعمال کرتے ہوئے، کُرد قیادت والی افواج شمال مشرقی شام میں داعش کے مضبوط ٹھکانے پر پے در پے حملوں کی تیاری کر رہی ہیں۔
شامی افواج نے پچھلے سال یہ فوجی اڈا خالی کردیا تھا، جس کے بعد داعش کے لڑاکوں نے اُس پر قبضہ جمایا۔ ’سیریئن ڈیموکریٹک فورسز‘ (ایس ڈی ایف) نے، جو دراصل کرد، عرب اور مسیحی لڑاکوں پر مشتمل ایک گروہ ہے، چند ہی ہفتے قبل ہسکہ کے جنوبی خطے میں اڈے پر داعش کا قبضہ خالی کرا لیا ہے۔
داعش کے ساتھ لڑائی کے نتیجے میں کئی مقامات کھنڈرات کا منظر پیش کر رہے ہیں، جہاں کرد داعش کے گروہ کے خلاف پیش قدمی جاری رکھے ہوئے ہیں۔
ایس ڈی ایف کے ترجمان، کرد کرنل طلال سائلو نے ’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا کہ الشدادی میں داعش کے شدت پسندوں کا ایک طاقت ور ٹولہ بستا ہے، جو الخمائیل کے قصبے کے جنوب میں 60 کلومیٹر دور واقع ہے، جہاں اب سیریئن ڈیموکریٹک فورسز کا کنٹرول ہے۔
کردوں کو توقع ہے کہ وہ فتح ہونے والے اس علاقے کو استعمال کرتے ہوئے مزید پیش قدمی کی جانب بڑھ سکیں گے۔
سائلو نے کہا کہ ’الخمائیل جیسے علاقوں پر کنٹرول ہماری فوج کے لیے حکمت عملی کے اعتبار سے اہمیت رکھتا ہے‘۔
فوجی ذرائع کے مطابق، اب تک، کئی مقامات پر داعش کے شدت پسندوں اور ایس ڈی ایس کے لڑاکوں کے درمیان وقفے وقفے سے جھڑپیں جاری ہیں۔
مقامی افواج نے بتایا ہے کہ داعش کے دہشت گردوں سے ایک بڑا رقبہ واگزار کرانے کے لیے امریکی قیادت والے اتحاد کی فضائی کارروائیاں بہت ہی کارآمد ثابت ہوئی ہیں۔
سائلو کے بقول، ’امریکی قیادت والے اتحاد کے ساتھ ہماری ساجھے داری بہت دیرپہ رہی ہے۔ اور اِسے جاری رکھا جائے گا‘۔
ادھر، جنوبی ہسکہ میں اتحادی افواج نے ’ایس ڈی ایف‘ کے ساتھ قریبی رابطہ قائم رکھا ہے، جو داعش کے خلاف لڑائی میں اُس کا ایک مقامی ساتھی ہے۔
عرکیش سزری، کرد فورسز ’وائی پی جی‘ کے کمانڈر ہیں، جو ’ایس ڈی ایف‘ میں شامل ہے۔ اُنھوں نے گذشتہ ہفتے ’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا کہ، ’اتحادی افواج ضرورت کے مطابق کارروائی کرتی ہیں‘۔
اُن کے بقول، ’وہ داعش کے ٹھکانوں کو نشانہ بناتے ہیں، یا جو کارروائیاں حربی داؤ پیچ کا حصہ ہوتی ہیں، وہ کرتے ہیں‘۔
اتحادی اہل کاروں کا کہنا ہے کہ داعش کے شدت پسند شام میں شکست کھا رہے ہیں، ایسے میں جب اتحادی لڑاکا طیارے فضائی کارروائیاں کرتے ہیں۔
کرنل اسٹیو وارن نے بغداد سے موصولہ اپنی ایک حالیہ وڈیو بریفنگ میں کہا ہے کہ ’مقامی زمینی فورسز کے کہنے پر ہم فضائی حملے کرتے ہیں، تب داعش ردِ عمل دکھاتی ہے اور میدا ن جنگ میں اُن کی موجودگی نمایاں ہوتی ہے۔ اور یوں ہمارے لیے اُن کا صفایا کرنا آسان ہو جاتا ہے‘۔
بقول اُن کے، ’ہم سمجھتے ہیں کہ اب داعش اب بچاؤ کے ہتھکنڈے اپنا رہی ہے‘۔