رسائی کے لنکس

2010ء میں عالمی درجہ حرارت میں ریکارڈ اضافہ


(فائل فوٹو)
(فائل فوٹو)

مائیکل جروڈ نے کہا ہے کہ تازہ ترین اعداد و شمار سے یہ واضح ہو جانا چاہیئے کے موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ انسانی سرگرمیاں ہیں لیکن ان سائنسی حقائق سے قطع نظر پاکستان میں جاری ہونے والی ایک تازہ جائزہ رپورٹ کے مطابق عوام کی اکثریت کے خیال میں حالیہ غیر معمولی موسمی تبدیلی ’خدا کی طرف سے سزا‘ہے۔

اقوام متحدہ کے عالمی موسمیاتی ادارے نے کہا ہے کہ گذشتہ سال کرہ ارض کے اوسط درجہ حرارت میں 0.95 سینٹی گریڈ کا ریکارڈ اضافہ ہوا جو 1998ء اور 2005ء سے مطابقت رکھتا ہے۔

ادارے کے سربراہ مائیکل جروڈ نے جمعرات کو جنیوا میں نیوز کانفرنس سے خطاب میں بتایا ہے کہ 2010ء میں مرتب کیے گئے اعداد و شمار سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ دنیا کے درجہ حرارت میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے اور اس کو روکنے کے لیے ماحول کو نقصان پہنچانے والی ’گرین ہاؤس‘ گیسوں کے استعمال میں کمی لانا ہو گی۔

برطانیہ کے موسمیاتی ادارے اور امریکہ میں آب و ہوا سے متعلق سنٹر اور خلائی تحقیق کے ادارے ناسا کی مدد سے گذشتہ سال مرتب کیے گئے اعداد و شمار کا موازنہ 90-1960 کے درمیانی عرصے کے مجموعی درجہ حرارت سے کیا گیا ہے۔

عالمی موسمیاتی ادارے کے مطابق 1854ء سے اب تک 10 گرم ترین سال 1998ء کے بعد ریکارڈ کیے گئے ہیں اور درجہ حرارت میں حالیہ اضافہ خصوصاً افریقہ سمیت ایشیا اور آرکٹک کے بعض حصوں میں ریکارڈ کیا گیا۔

مائیکل جروڈ نے کہا ہے کہ تازہ ترین اعداد و شمار سے یہ واضح ہو جانا چاہیئے کے موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ انسانی سرگرمیاں ہیں لیکن ان سائنسی حقائق سے قطع نظر پاکستان میں جاری ہونے والی ایک تازہ جائزہ رپورٹ کے مطابق عوام کی اکثریت کے خیال میں حالیہ غیر معمولی موسمی تبدیلی ’خدا کی طرف سے سزا‘ہے۔

یہ رپورٹ رائے عامہ کے جائزے مرتب کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم گیلپ پاکستان نے مرتب کی ہے جس نے شہری اور دیہی علاقوں میں تمام طبقات کی نمائندگی کرنے والے 2,754 افراد سے ملکی و عالمی سطح پر رونما ہونے والی موسمی تبدیلی کی وجہ دریافت کی۔ جائزہ میں شامل 54 فیصد افراد کا کہنا تھا کہ یہ قدرت کی طرف سے سزا ہے، جب کہ 22 فیصد نے اس کا ذمہ دار عالمی حدت میں اضافے اور 21 فیصد نے ماحولیاتی آلودگی کو ٹھہرایا۔

قابل ذکر امر یہ ہے کہ رپورٹ کے مطابق موسمی تبدیلی کو خدا کی طرف سے سزا قرار دینے والوں کی شرح شہری اور دیہی علاقوں میں تقریباً برابر تھی۔

XS
SM
MD
LG