لاہور ہائی کورٹ نے صوبائی محکمۂ ماحولیات کو ايئر کوالٹی لیول باقاعدگی سے ویب سائٹ پر جاری کرنے کي ہدایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ عدالت وقتاً فوقتاً محکمۂ ماحولیات کی پالیسی کو مانیٹر کرے گی۔
لاہور اور پنجاب کے دیگر شہروں میں زہریلی دھند سے متعلق ایک درخواست کی سماعت کرتے ہوئے چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ منصور علی شاہ نے کہا ہے کہ اسموگ نے سانس لينا دشوارکرديا ہے ليکن ماحوليات اور صحت کے محکموں کو پرواہ ہي نہيں۔
منگل کو درخواست گزار شیراز ذکا کی درخواست کی سماعت کرتے ہوئے چيف جسٹس لاہورہائي کورٹ کا کہنا تھا کہ فضائي آلودگي کي صورتِ حال پريشان کن ہے ليکن حکام اسے بہت ہلکا لے رہے ہيں۔
چيف جسٹس نے سیکرٹری ہیلتھ سے سوال کيا کہ اسموگ کی صورتِ حال کے باوجود ہيلتھ ايمرجنسي کيوں نافذ نہيں کي گئي؟ انہوں نے کہا کہ اس زہریلی فضا میں بچے اسکول جارہے ہيں ليکن محکموں کي کارکردگي صرف اجلاسوں تک محدود ہے۔
اسموگ کے خلاف درخواست کی سماعت کے دوران صوبائی محکمۂ ماحولیات نے ہائی کورٹ کے سامنے قلیل المدتی اقدامات کی تفصیلات پیش کیں اور عدالت کو یقین دہانی کرائی کہ ايئر کوالٹي ليول بڑھنے پر انڈسٹریل یونٹس اور اسکول بند کرديے جائيں گے۔
سیکرٹری ماحولیات سیف انجم نے عدالت کو بتایا کہ پی ایم لیول 5ء2 نارمل سے بڑھا تو محکمہ فوری اقدامات کرے گا۔
انہوں نے بتایا کہ ايئر کوالٹي ليول 200 سے 300 ہونے کي صورت ميں انڈسٹریل یونٹس بند کردیے جائیں گے اور 300 سے 400 ہونے پر پرائمری اسکول اور تعميراتي کام بند کرديا جائے گا۔
کیس کی سماعت کے بعد وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے سیکرٹری ماحولیات سیف انجم نے کہا کہ ائیر کوالٹی کنٹرول 400 سے 500 ہونے پر تمام تعلیمی ادارے بند کر دیے جائیں گے اوراگر لیول 500 سے بڑھا تو میڈیکل ایمرجنسی لگ جائے گی اور لوگوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا جائےگا۔
کیس کی سماعت کے بعد درخواست گزار شیراز ذکا کا وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہنا تھا کہ بڑھتی ہوئی اسموگ کے باعث لاہور دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں شمار ہونے لگا ہے۔
لاہور سمیت صوبۂ پنجاب کے بیشتر شہر اکتوبر کے آخر سے اسموگ کی لپیٹ میں ہیں جس کے باعث شہریوں کو سانس لینے میں دشواری اور گلے اور آنکھوں کے امراض کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جب کہ پروازوں اور ٹرینوں کی آمد و رفت اور روڈ ٹریفک بھی متاثر ہورہا ہے۔