پاکستان کے شہر لاہور کی پولیس نے کم سن بہن، بھائی پر مبینہ طور پر تشدد کرنے والے سوتیلے باپ کو گرفتار کر لیا ہے۔
پولیس کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا ہے کہ 10 سالہ حسنین اور 14 سالہ دعا کو لاہور کے علاقے ٹاؤن شپ میں سوتیلے باپ کی جانب سے تشدد کا نشانہ بنایا گیا جس کی تحقیقات جاری ہیں۔ پولیس کے مطابق مار پیٹ کے باعث بچوں کی چیخ و پکار پر محلے دار پہنچے اور پولیس کو اطلاع کر دی۔
اہلِ علاقہ نے دعویٰ کیا ہے کہ دونوں بہن بھائیوں کو ڈنڈوں سے مارا گیا اور مبینہ طور پر بلیڈز سے کٹ بھی لگائے گئے۔ پولیس کے مطابق بچوں کے والدین کی علیحدگی ہو چکی ہے اور وہ اپنے والد اویس کے پاس اسلام آباد میں رہتے تھے۔ ترجمان لاہور پولیس کا کہنا ہے کہ دونوں بچے اپنی سگی والدہ سے ملنے لاہور آئے ہوئے تھے۔ اسی دوران سوتیلے والد نے ان کو تشدد کا نشانہ بنایا۔
تشدد کا واقعہ سامنے آنے پر ٹاؤن شپ پولیس نے ملزم کو حراست میں لے کر قانونی کارروائی کا آغاز کر دیا ہے اور بچوں کا طبی معائنہ کرایا جا رہا ہے۔
وائس آف امریکہ نے اِس سلسلے میں بچوں کی والدہ اور والد سے رابطہ کرنے کی کوشش کی، لیکن وہ دستیاب نہیں ہو سکے۔
چائلڈ پروٹیکشن بیورو کی چیئرپرسن سارہ احمد کہتی ہیں کہ ایسے واقعات کو اُسی صورت میں روکا جا سکتا ہے جب معاشرے میں زیادہ سے زیادہ آگہی ہو اور جو بھی شخص بچوں پر تشدد یا ظلم کرے اسے قانون کے مطابق سزا دی جائے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُنہوں نے کہا کہ بچوں کے حقوق اور اُنہیں نہ مارنے کے حوالے سے لوگوں میں آگہی نہیں ہے۔ ان کے مطابق لوگوں کو آگاہی دینے میں وقت لگے گا البتہ معاشرہ بہتری کی طرف جانا شروع ہو جائے گا۔
اُن کا کہنا تھا کہ جو لوگ بچوں کو مارتے ہیں اُن کو سزائیں ملنی چاہیے، جس کے لیے قوانین بھی موجود ہیں۔ ایسے کیسز میں لوگ عدالت جاتے ہی نہیں ہیں اور اگر چلے بھی جائیں تو اُنہیں سزائیں نہیں ملتی۔ جب سزائیں ملیں گی، تو بچوں پر تشدد کے حوالے سے مسائل میں کمی آئے گی۔
اُنہوں نے اپنے مشاہدے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ جو لوگ بچوں کو مارتے ہیں یا جنسی تشدد کرتے ہیں، کبھی نہ کبھی اُن پر بھی تشدد ہوا ہوتا ہے۔ ایسے افراد احساس محرومی اور ذہنی اذیت کا شکار رہتے ہیں۔
پاکستان میں بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم 'سرچ فار جسٹس' کے سربراہ افتخار مبارک کہتے ہیں کہ خاندان ٹوٹنے کا خمیازہ بچوں کو بھگتنا پڑتا ہے۔ بچوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے ضروری ہے کہ والدین اور ریاست دونوں اپنا کردار ادا کریں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ والدین میں علیحدگی ہونے سے بچوں پر منفی اثر پڑتا ہے، بنیادی طور پر بچوں کی حفاظت والدین کی ذمے داری ہے۔
افتخار مبارک کہتے ہیں کہ پاکستان اقوامِ متحدہ کے چائلڈ رائٹس کنونشن کا رُکن ہے جس کے مطابق بچوں کی پرورش اور دیکھ بھال میں ماں اور باپ، دونوں کے کردار کو اہمیت دی گئی ہے۔
کنونشن کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ والدین میں علیحدگی ہو بھی جائے تو تب بھی وہ بچوں کی پرورش اور دیکھ بھال سے بری الذمہ نہیں ہیں۔
افتخار مبارک کہتے ہیں کہ ایسے واقعات میں عورت یا مرد میں سے کوئی بھی دوسری شادی کر لے تو بچے نظر انداز ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بچے احساس محرومی کا شکار ہو جاتے ہیں۔
اُن کا مزید کہنا تھا کہ بچوں کو والدین کی جو توجہ چاہیے ہوتی ہے وہ نہیں مل پاتی، جس کے باعث کوئی تیسرا فریق ایسی صورت میں فائدہ بھی اُٹھاتا ہے اور بعض اوقات بچے جنسی تشدد کا نشانہ بھی بنتے ہیں۔
چائلڈ پروٹیکشن بیورو کی چیئرپرسن سارہ احمد افتخار مبارک کے اِن نظریات سے اتفاق نہیں کرتیں کہ والدین میں علیحدگی کی صورت میں بچے نظر انداز ہوتے ہیں اور ان پر تشدد یا دیگر جرائم ہوتے ہیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ ایسے درجنوں واقعات ہیں، جن میں بچوں کے حقیقی والدین میں جب علیحدگی ہو جاتی ہے اور اُن دونوں میں سے کوئی ایک یا دونوں فریقین دوبارہ شادی کر لیتے ہیں تو بھی بچوں کا نیا والد یا والدہ ان کو اپناتے ہیں۔ اُن کی اچھے طریقے سے پرورش کی جاتی ہے اور بچوں کو معاشرے کا کامیاب اور ذمہ دار شہری بنایا جاتا ہے۔
سارہ احمد کے بقول اصل بات صرف احساس کی ہے کہ کون کتنا زیادہ احساس کرتا ہے، جن میں احساس ہوتا ہے وہ اپنے بچوں کے ساتھ دوسرے کے بچوں کو بھی اچھے انداز میں پالتے ہیں اور بہتر پرورش کرتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اقوامِ متحدہ کے بچوں کے حقوق اور اُن کے تحفظ کے حوالے سے کنونشن کا رکن ہے، جس کے باعث پاکستان پر زیادہ بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔
سارہ احمد یہ دعویٰ کرتی ہیں کہ اُن کے مشاہدے میں ایسا کبھی نہیں آیا کہ حقیقی والدین میں سے کسی نے بچوں پر بری طرح تشدد کیا ہو البتہ ایسا ضرور ہوا ہے کہ والدین میں سے کوئی ایک یعنی حقیقی والد یا والدہ نہ ہو، تو تشدد کے واقعات سامنے آئے ہیں۔
کم سن بچوں پر تشدد کا واقعہ سامنے آنے پر سوشل میڈیا پر بھی لوگوں نے واقعہ کی سخت مذمت کی ہے۔ سوشل میڈیا پر اپنے ردِ عمل میں لوگوں کا کہنا ہے کہ بچوں پر تشدد قابل مذمت ہے۔
سوشل میڈیا پر مقامی صحافی آصف چوہدری نے پولیس کی تحویل میں کم سن حسنین کی ویڈیو ٹوئٹ کی۔ اگرچہ ان کی ویڈیو میں دئے گئے بعض حقائق درست نہیں ہیں۔
تشدد کا واقعہ سامنے آنے پر وزیراعظم کے معاونِ خصوصی برائے سماجی اصلاحات سلمان صوفی نے بچوں کے بارے میں جاننا چاہا، لیکن اس سے قبل ایک اور واقعے میں توجہ دلانے کے باوجود کارروائی نہ ہونے پر مقامی صحافی نے اُنہیں تنقید کا نشانہ بنایا۔