ـ"میرے لیے زندگی کا یہ مشکل ترین فیصلہ تھا لیکن اس وقت مجھے دھچکہ لگا جب میں نے کہا کہ تم مجھے طلاق دے دو تو اس نے انکار کردیا لیکن جب میں نے کہا کہ ٹھیک ہے پھر میں خلع لے لیتی ہوں تو اس نے آرام سے اقرار میں سر ہلا دیا۔"
یہ کہنا ہے اسلام آباد میں ایک نجی کمپنی کے ساتھ منسلک خاتون فریحہ(فرضی نام) کا۔
فریحہ کی شادی چند برس قبل اسلام آباد میں ہی ہوئی اور شادی کے کچھ عرصہ بعد ان کے اپنے شوہر کے ساتھ اختلافات شروع ہوگئے۔
اُن کے بقول "شادی کے بعد بڑا اختلاف یہ تھا کہ وہ میری ضرورت اور بات مان تو لیتے تھے، لیکن اس سے قبل غیر ضروری بحث اور ہر بات کو حد سے زیادہ طوالت دینا میرے لیے ذہنی اذیت کا باعث بن رہا تھا۔ کوئی بھی معاملہ ہو چاہے وہ والدین کے گھر جانے کا یہ شاپنگ کا وہ اپنی مرضی کے مطابق معاملے کو طول دے کر بدمزگی پیدا کرتے۔"
فریحہ کے بقول "اُن کے لیے وہ دن بہت مشکل تھا جب میں نے اپنے شوہر سے کہا کہ وہ یہ سب چیزیں درست کریں یا اُنہیں طلاق دے دیں۔ تو بھی اُنہوں نے میری بات کو اہمیت نہیں دی، لیکن جب میں نے اُنہیں کہا کہ میں خلع لے لیتی ہوں تو فوراً اس پر تیار ہو گئے۔ اس پر مجھے اپنی بے توقیری کا احساس ہوا۔"
بعدازاں فریحہ کو یہ احساس ہوا کہ خلع لینے سے وہ 50 لاکھ حق مہر اور زیورات سے محروم ہو جائیں گی اور یہی وجہ تھی کہ اُن کے شوہر نے فوراً خلع پر حامی بھر لی تھی۔
خلع کی درخواست دائر ہونے کے بعد عدالتی تعطیلات شروع ہو گئیں اور شوہر نے عدالت میں آ کر خلع پر آمادگی ظاہر کر دی۔
کیس دائر ہونے اور چھٹیاں ہونے کے دوران ایک ماہ سے زائد کا وقت موجود تھا لیکن انہوں نے ایک بار بھی مجھ سے مفاہمت پر بات نہیں کی۔
عدالت کی طرف سے کچھ روز کا وقت دیا گیا لیکن اس دوران بھی انہوں نے ایک میسج تک نہیں کیا، اس کے علاوہ عدالت میں کیس کے فیصلے سے قبل بھی جج صاحب نے ہمیں کچھ دیر کا وقت دیا کہ شاید کوئی بہتری کی صورتَ حال بن سکے۔ لیکن وہ خاموش رہے اور خلع کا فیصلہ میرے حق میں آگیا۔
اس کے بعد ڈگری کے اجرا میں تین ماہ کا وقت لگا اور اس میں بھی ممکن تھا کہ مفاہمت کی جاسکے، لیکن انہوں نے دوبارہ پلٹ کر بھی نہ دیکھا جس سے مجھے آج یہ اطمینان ہے کہ ایسے شخص کے ساتھ زندگی گزارنے سے الگ ہونا بہتر ہے جس کو میری زرا سی بھی قدر اور پرواہ نہیں تھی۔
یہ کہانی صرف فریحہ کی نہیں بلکہ بہت سی ان خواتین کی ہے جو خلع جیسا مشکل فیصلہ کرتی ہیں اور اس کے بعد انہیں حق مہر کی رقم اور دیگر اشیا سے دست بردار ہونا پڑتا ہے۔
حالیہ دنوں میں سپریم کورٹ آف پاکستان میں ایک فیصلہ ایسا سامنے آیا ہے جس میں شوہر کے برے سلوک کی شکار ایک خاتون کی خلع کو عدالت نے طلاق میں تبدیل کردیا۔
سپریم کورٹ کے جج جسٹس سردار طارق مسعود کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل کی سماعت کی تھی۔
اس معاملے میں پشاور کی ایک خاتون نے اپنے شوہر کے خلاف فیملی کورٹ میں درخواست کی تھی ۔
خاتون کی جانب سے مقدمے میں مہر کی رقم، جہیز کا سامان، طبی اخراجات، اپنی اور اپنی بیٹی کی کفالت کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
اس پر فیملی کورٹ نے طلاق کا فیصلہ دیا لیکن ایپلٹ کورٹ نے 2015 میں فیملی کورٹ کے فیصلہ کو کالعدم قرار دیتے ہوئے نکاح ختم کرنے کے فیصلہ کو خلع میں تبدیل کردیا۔ خاتون کو 5 تولہ سونا شوہر کو واپس کرنے کا حکم دیا تھا، بعد ازاں پشاور ہائی کورٹ نے بھی ایپلٹ کورٹ کے فیصلے کو برقرار رکھا جس کے بعد یہ معاملہ سپریم کورٹ پہنچا۔
سپریم کورٹ میں جسٹس سردار طارق مسعود کی سربراہی میں بینچ نے سماعت کے بعد خاتون کے حق میں فیصلہ دیا اور فیملی کورٹ کے فیصلہ کو بحال کردیا۔
دورانِ سماعت عدالت نے ریمارکس دیے کہ بے رحمانہ، ظالمانہ اور جابرانہ طرز عمل اور رویے کے باوجود شوہر کی جانب سے ازدواجی حقوق کے دعوے کا واحد اور بنیادی مقصد صرف اور صرف کفالت اور مہر کی رقم کی ادائیگی سے بچنا معلوم ہوتا ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس میں کہا کہ مرد اور عورت کے درمیان ازدواجی بندھن پاکیزہ رشتہ ہے جو زندگی میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ یہ رشتہ میاں بیوی کے درمیان ایک دوسرے کی خوشی اور ہمدردی کے جذبات کو پروان چڑھاتا ہے، اس پر ہی خاندانی نسب اور وراثت کا بھی انحصار ہوتا ہے۔
عدالتی فیصلے میں کہا گیا تھا کہ مرد سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ اپنی بیوی کے ساتھ پیار اور محبت کے ساتھ اچھا سلوک روا رکھے گا۔
فیصلے میں وضاحت کی گئی ہے کہ ایسا طرزِ عمل یا رویہ جو بیوی کے لیے ذہنی اذیت اور جسمانی تکلیف کا باعث بنتا ہے اس کے لیے ازدواجی بندھن کو برقرار رکھنا ناممکن بنا دیتا ہے۔
اس کیس میں یہ بات بھی سامنے آئی تھی کہ شوہر نے شادی کے ایک ہفتے بعد بیوی پر دباؤ ڈالا کہ وہ کرائے پر مکان کے لیے رقم کا بندوبست کرے۔
اس کے علاوہ خاتون پر اس کے شوہر اور خاندان کی طرف سے یہ الزامات بھی لگائے گئے کہ یہ بچی ان کی نہیں ہے جس سے درخواست گزار خاتون کو شدید صدمہ پہنچا۔
فیملی کورٹ میں یہ بات بھی سامنے آئی تھی کہ خاتون کے شوہر اور اس کے خاندان نے اس پر دباؤ ڈالا کہ وہ اپنی تنخواہ شوہر کے ساتھ جوائنٹ اکاؤنٹ میں جمع کروائے اور ذاتی استعمال کے لیے اس کی اجازت لے، خاتون کے شوہر نے بچی کی پیدائش کے وقت ڈیلیوری کے کوئی اخراجات ادا نہیں کیے۔
عدالت نے اس تمام صورتِ حال کا جائزہ لینے کے بعد ایپلٹ کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے فیملی کورٹ کا فیصلہ بحال کردیا اور خلع کے بجائے طلاق کا فیصلہ جاری کردیا۔
سینئر قانون دان عمران شفیق ایڈووکیٹ کہتے ہیں کہ یہ فیصلہ اس لحاظ سے بھی اہم ہے کہ خواتین پر تشدد کے بارے میں قرآن اور احادیث کے حوالے دے کر بتایا گیا ہے کہ خاتون کو ذہنی اذیت دینا بھی ظلم ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے عمران شفیق کا کہنا تھا کہ پاکستان کے قانون میں اس بارے میں ابہام پایا جاتا تھا جس پر سپریم کورٹ نے وضاحت کردی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ خاتون پر اگر ذہنی تشدد بھی ہو تو وہ بھی تشدد کے زمرے میں آئے گا، اس سے قبل شہادت اور ثبوت کے معیار بہت زیادہ سخت مقرر کیے گئے تھے اور خاتون کو خود پر ہونے والے تشدد کو ثابت کرنے کے لیے ایسے ثبوت فراہم کرنے پڑتے تھے۔
عمران شفیق کا کہنا تھا کہ اس فیصلہ میں قرآن اور حدیث کی روشنی میں خواتین کے ساتھ حسن سلوک کے بارے میں بتایا گیا ہے، خواتین اور مرد کو ایک دوسرے کا لباس قرار دیا گیا ہے جب کہ حق مہر کی ادائیگی اچھے انداز میں ادا کرنے کا کہا گیا ہے۔
عمران شفیق نے کہا کہ ماضی میں اکثر ماتحت عدالتوں میں ظلم کی شکار خواتین کو یہ آسان حل دیا جاتا تھا کہ انہیں کہا جاتا تھا کہ آپ خلع لے لیں جس میں انہیں اکثر اپنے حق مہر اور دیگر سامان کا بیشتر حصہ چھوڑنا پڑتا تھا۔
لیکن اُن کے بقول اس فیصلہ کے بعد ظلم کی شکار ان خواتین اور فیملی کورٹس کے لیے بھی نیا راستہ کھلا ہے۔ سپریم کورٹ نے قرار دیا ہے کہ اگر وہ ظلم ثابت کردے تو اسے نان نفقہ کے ساتھ حق مہر اور دیگر سہولیات فراہم کی جائیں کیوں کہ ماضی میں ان کے حقوق متاثر ہوتے رہے ہیں اور اب اس فیصلے سے خواتین کو انصاف مل سکے گا۔