پاکستانی پارلیمان کے ایوان بالا سینیٹ سے حال ہی میں مستعفی ہونے والے مصطفی نواز کھوکھر کہتے ہیں کہ ان کا سینیٹ سے استعفی اور پیپلز پارٹی سے علیحدگی کی وجوہات میں اسٹیبلشمنٹ کا بھی دباؤ تھا۔
مصطفی نواز کھوکھر کا کہنا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ کا ماضی میں بھی پاکستانی سیاست میں کردار رہا، اب بھی ہے اور آئندہ بھی رہے گا۔
اسلام آباد میں وائس آف امریکہ کے نمائندے علی فرقان کو دیے گئے خصوصی انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ ان کا پیپلز پارٹی سے علیحدگی کا فیصلہ گزشتہ دو سالوں میں ہونے والے واقعات کا تسلسل تھا۔ پہلے انہیں انسانی حقوق کمیٹی کی سربراہی دوبارہ نہیں دی گئی اور بعد ازاں پارٹی کی جانب سے سینیٹ کی رکنیت سے مستعفی ہونے کا کہا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ سینیٹ کی انسانی حقوق کمیٹی کے چیئرمین کی حیثیت سے بہت سے واقعات کا نوٹس لیا کرتے تھے جس پر شاید اسٹیبلشمنٹ کو اعتراض تھا۔
بلاول بھٹو کے ترجمان رہنے والے اور پاکستان پیپلز پارٹی کے سابق سینیٹر مصطفی نواز کھوکھر نے گزشتہ ماہ سینیٹ کی رکنیت سے استعفی دینے کے بعد اب پارٹی کو بھی خیرباد کہہ دیا ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی بائیں بازو کی ایک بڑی جماعت سمجھی جاتی ہے، تاہم حالیہ عرصے میں لبرل خیالات رکھنے والے کئی رہنماؤں کو پارٹی اور حکومتی عہدوں سے الگ کیا جاتا رہا ہے۔
اسٹیبلشمنٹ کے ناقد اور انسانی حقوق کے لیے مؤثر آواز سمجھے جانے والے مصطفی نواز کھوکھر کی لبرل جماعت پیپلز پارٹی سے علیحدگی پر سیاسی مبصرین نے حیرت کا اظہار کیا تھا اور یہ معاملہ پاکستان کے ذرائع ابلاغ میں بھی زیرِ بحث رہا۔
مصطفی نواز کھوکھر سمجھتے ہیں کہ پارٹی قیادت ان کے اسٹیبلشمنٹ مخالف سیاسی بیانات کو پسند نہیں کرتی تھی اس بنا پر انہیں سینیٹ سے مستعفی ہونے کا کہا گیا اور اب وہ پیپلز پارٹی سے بھی علیحدگی اختیار کرچکے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ان کا پیپلز پارٹی کے ساتھ اچھا وقت گزرا، جماعت نے انہیں دوسرے صوبے سے سیینٹر منتخب کروایا ، لہذٰا مناسب نہیں ہے کہ وہ جماعت کے اس فیصلے پر تنقید کریں۔
خیال رہے کہ مصطفی نواز کھوکھر کے والد اور سابق ڈپٹی اسپیکر حاجی نواز کھوکھر پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کے قریبی دوست رہے ہیں۔
مصطفی نواز کا شمار بھی پارٹی چیئرمین بلاول بھٹو کے قریبی ساتھیوں میں ہوتا تھا۔
'سیاسی جماعتوں میں اختلافِ رائے کی گنجائش کم ہے'
مصطفی نواز کھوکھر کہتے ہیں کہ فی الحال وہ آزاد حیثیت سے سیاست کریں گے اور مختلف قومی معاملات پر کھل کر اپنے خیالات کا اظہار کرتے رہیں گے۔
اُن کے بقول" جس طرح عمران خان کی حکومت نے 'سیاسی انتقام' لیے اور اس وقت کی حزبِ اختلاف کو گرفتار و ہراساں کیا تو مجھے اُمید تھی کہ جب حکومت میں آئے تو ایسا نہیں ہو گا۔"
لیکن اُن کے بقول موجودہ اتحادی حکومت پی ٹی آئی رہنماؤں کے خلاف کارروائیوں کا دفاع کر رہی ہے۔
ان کے بقول "سب کو پتا ہے کہ یہ سیاسی انتقام اگر پی ٹی آئی کے لوگوں کے ساتھ ہورہا ہے تو کہاں سے ہورہا ہے۔ سیاست دانوں کو اس مقصد کے لیے اپنا کندھا نہیں دینا چاہیے، اس سے جمہوریت کو نقصان پہنچے گا۔"
یاد رہے کہ مصطفی نواز کھوکھر نے پی ٹی آئی کے سینیٹر اعظم سواتی کی مبینہ ویڈیو پر خفیہ اداروں کے خلاف سخت ردِعمل ظاہر کیا تھا جس کے تین روز بعد پارٹی قیادت نے ان سے استعفی مانگ لیا تھا۔
مصطفی نواز کھوکھر نے کہا کہ اگر کل عمران خان دوبارہ اقتدار میں آتے ہیں اور سیاست دانوں کے خلاف انتقامی کارروائیاں کرتے ہیں تو کس منہ سے ہم کہیں گے کہ سیاسی انتقام نہ لیا جائے۔
وہ کہتے ہیں کہ چاہے عمران خان کی حکومت ہو یا موجودہ اتحادی حکومت پچھلے پانچ برسوں میں جمہوریت کو کافی نقصان پہنچا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت ایسا سیاسی ماحول ہے کہ اگر سیاسی جماعتوں میں اظہار ِرائے کی آزادی نہیں ہو گی، اختلاف رائے نہیں سنا جائے گا تو ملک میں جمہوریت کیسے پنپے گی۔
'سیاسی قائدین نے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ گزارہ کرنا سیکھ لیا ہے'
مصطفی نواز کہتے ہیں کہ پاکستان کی سیاست میں اسٹیبلشمنٹ کا کردار ماضی میں تھا، حال میں بھی ہے اور مستقبل میں بھی رہے گا۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ کردار اس وجہ سے بھی رہے گا کہ سیاسی جماعتوں کی یہ ترجیح نہیں رہی کہ اسٹیبلشمنٹ کے کردار کی مخالفت کی جائے یا اس کردار کو کم کیا جائے۔
ان کے بقول "اب ساتھ رہ کر ایک طرح سے گزارہ کرنا ہی سب نے سیکھ لیا ہے۔"
خیال رہے کہ پاکستانی فوج کے سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے اپنی ریٹائرمنٹ سے چند روز قبل کہا تھا کہ فوج نے فروری میں سیاست میں مداخلت نہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ نے یہ بھی کہا تھا کہ ماضی میں فوج نے سیاست میں جو مداخلت کی وہ غیر آئینی تھی۔
سابق آرمی چیف قمر جاوید باجوہ کی مدت میں توسیع کے لیے قانون سازی کے حق میں ووٹ ڈالنے کے سوال پر مصطفی نواز کھوکھر کہتے ہیں کہ انہوں نے توسیع کے قانون پر اختلاف کیا تھا تاہم جماعت کی پالیسی کے مطابق قانون سازی کے حق میں ووٹ ڈالنا پڑا۔
'اسلام آباد کے میئر کا انتخاب لڑنے کا سوچ رہا ہوں'
اسلام آباد کے بلدیاتی انتخابات کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ حکومت انتخابات سے راہِ فرار اختیار کررہی ہے اور بلدیاتی انتخابات سے محض چار روز قبل انہیں ملتوی کردیا گیا۔
وہ کہتے ہیں وفاقی دارالحکومت میں حکومت انتخابات کو لے کر خوف کا شکار ہے اور عوام میں جانے کا اعتماد نہیں رکھتی تو سوچیں باقی ملک میں کیا حال ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ بلدیاتی ادارے جمہوریت کی پہلی سیڑھی کا درجہ رکھتے ہیں اور اگر اسلام آباد کے میئر کا براہ راست انتخاب ہوتا ہے تو وہ اس میں حصہ لینے کا سوچیں گے۔
پیپلزپارٹی نے مصطفی نواز کے سینیٹ سے مستعفی ہونے اور پارٹی سے علیحدگی اختیار کرنے کے اعلان پر کوئی باقاعدہ ردِعمل نہیں دیا ہے۔
تاہم گزشتہ ہفتے پیپلز پارٹی کے ترجمان اور وزیر مملکت فیصل کریم کنڈی نے ایک سوال کے جواب میں کہا تھا کہ مصطٖی نواز کھوکھر ان کے قریبی دوست اور کلاس فیلو (ہم جماعت) رہے ہیں اور پارٹی سے علیحدگی کا فیصلہ ان کا ذاتی ہے جس پر وہ کوئی رائے نہیں دینا چاہتے۔