سابق گورنر پنجاب اور عمران خان کے وکیل سردار لطیف کھوسہ نے کہا ہے کہ وہ اور اعتزاز احسن تحریکِ انصاف اور پیپلزپارٹی کو قریب لا سکتے ہیں۔
اسلام آباد میں وائس آف امریکہ کو دیے گئے انٹرویو میں لطیف کھوسہ کا کہنا تھا کہ وہ دونوں جماعتوں کے درمیان مفاہمت کے لیے کردار ادا کر سکتے ہیں۔
لطیف کھوسہ نے کہا کہ سیاست ناممکنات کا کھیل نہیں ہے اور ان کی جماعت اگر 'ضیاء الحق کی باقیات' کے ساتھ ہاتھ ملا سکتی ہے تو پی ٹی آئی سے اتنے تعلقات خراب نہیں ہیں کہ ان کے ساتھ مل کر سیاست نہ کر سکیں۔
خیال رہے کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) پر اُن کے سیاسی مخالفین ضیاء الحق کی باقیات ہونے کا الزام عائد کرتے رہے ہیں۔ سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کی سیاست کا آغاز بھی سابق فوجی ڈکٹیٹر ضیاء الحق کے دور میں ہوا تھا اور اُنہی کے دور میں وہ 1985 میں پنجاب کے وزیرِ اعلٰی بنے تھے۔
پیپلزپارٹی کے سینئر رہنما سردار لطیف کھوسہ اور اعتزاز احسن پیپلزپارٹی کی پارٹی پالیسی سے ہٹ کر عمران خان کی حمایت کرتے رہے ہیں۔
لطیف کھوسہ کئی مقدمات میں عمران خان کی وکالت بھی کر رہے ہیں۔
تاہم لطیف کھوسہ نے کہا کہ یہ کردار وہ اسی صورت ادا کر سکتے ہیں جب ان کی جماعت پیپلز پارٹی انہیں ایسا کرنے کا کہے گی۔
انہوں نے کہا کہ انتقامی سیاست اور شدید نفرتوں کے ماحول میں بینظیر بھٹو نے نواز شریف کے ساتھ میثاق جمہوریت کیا اور اعادہ کیا کہ مستقبل میں انتقامی سیاست نہیں کریں گے۔
لطیف کھوسہ نے کہا کہ سیاسی مفاہمت کے بغیر ملک آگے نہیں بڑھ سکتا۔
ان کے بقول "آج بھی میرا یہ ماننا ہے کہ جب تک آپ سیاسی مفاہمت نہیں کریں گے، سبھی کے ساتھ بیٹھ کر، تب تک سیاسی استحکام نہیں آئے گا اور سیاسی استحکام کے بغیر ملک میں معاشی استحکام نہیں آ سکتا ہے۔"
لطیف کھوسہ کا کہنا تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو نے عوام کی سیاست کی، بینظیر بھٹو عوامی طاقت سے اقتدار میں آئیں لیکن آج ہم عوام کی سیاست کے بجائے اقتدار کی سیاست کر رہے ہیں اور سب کی نظریں مقتدر قوتوں کی طرف ہیں۔
'انتخابات کے لیے وکلا تحریک کی قیادت کروں گا'
عمران خان کی وکالت پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وکالت ان کا پیشہ ہے اور وہ ماضی میں نواز شریف کی وکالت بھی کرتے رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ عمران خان نے گھر آکر انہیں وکالت کرنے کا کہا اور کوئی انہیں سابق وزیرِ اعظم کی وکالت کرنے سے نہیں روک سکتا ہے۔
لطیف کھوسہ کہتے ہیں کہ انہوں نے اپنے مقدمات میں عمران خان کو ریلیف لے کر دیا ہے جن میں توشہ خانہ میں تین سال کی سزا معطلی بھی شامل ہے۔
لطیف کھوسہ نے کہا کہ وہ آئین کی عمل داری اور 90 روز میں انتخابات کے انعقاد پر وکلا تحریک کی قیادت کر رہے ہیں اور اس مقصد کے لیے وکلا کنونشن میں ان کے بیانیے کو پذیرائی مل رہی ہے۔
'جسٹس فائز عیسیٰ یقینی بنائیں کہ انتخابات میں تاخیر نہ ہو'
اس سوال پر کہ کیا 90 روز میں انتخابات کا معاملہ آنے والے چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کے لیے پہلا امتحان ہو گا؟ لطیف کھوسہ نے کہا کہ انہیں یقین ہے کہ انتخابات کے معاملے پر قاضی فائز عیسی آئین کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔
انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے جسٹس قاضی فائز عیسی کو چیف جسٹس بننے سے پہلے ہی متنازعہ بنانے کی کوشش کی ہے۔
لطیف کھوسہ کے بقول جسٹس فائز عیسی آئین کی پاسداری کا حلف اٹھائیں گے تو وہ توقع رکھتے ہیں کہ 90 روز میں الیکشن کروائیں گے۔
اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اگر انتخابات کا انعقاد 90 روز میں ممکن نہ ہوا تو جسٹس فائز عیسی یقینی بنائیں گے کہ انتخابات میں کم سے کم تاخیر برتی جائے۔
لطیف کھوسہ نے اُمید ظاہر کی کہ آنے والے چیف جسٹس قاضی فائز عیسی آئینی درخواستوں کی جلد سماعت کرتے ہوئے فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کے مقدمات کی سماعت کو منسوخ کردیں گے۔
انہوں نے کہا کہ جسٹس فائز عیسی 2015 میں اپنے ایک فیصلے میں یہ قرار دے چکے ہیں کہ عام شہریوں کے مقدمات فوجی عدالتوں میں نہیں چلائے جا سکتے ہیں اور اس حوالے سے قانون سازی تو درکنار آئینی ترمیم بھی لاگو نہیں ہو سکتی ہے۔
لطیف کھوسہ نے کہا کہ وہ یہ نہیں کہتے کہ عام شہریوں کے مقدمات سول عدالتوں میں نہ چلیں لیکن فوجی عدالتوں میں صرف فوجی اہل کاروں کے مقدمات چل سکتے ہیں۔
'تاریخ عمر عطا بندیال کی کمزوریوں کا احاطہ کرے گی'
انہوں نے کہا کہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال فوجی عدالتوں پر فیصلہ دے سکے، نہ 90 دن میں انتخابات کروانے کا اور نہ ہی پنجاب میں انتخابات کروانے کے سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل درآمد کروا سکے۔
ان کے بقول جسٹس عمر عطا بندیال اچھی شخصیت کے طور پر تو دیکھے جاسکتے ہیں لیکن ان کے دور میں عدالتی فیصلوں پر عمل درآمد نہ کروانے سے عدلیہ کمزور ہوئی ہے۔
فورم