|
ویب ڈیسک —اسرائیل کے جنوبی لبنان میں حزب اللہ اور غزہ میں حماس کے ساتھ جنگ بندی معاہدوں پر خدشات کے بادل منڈلا رہے ہیں۔ اتوار کو لبنان کے جنوبی علاقوں اور غزہ میں اسرائیلی فورسز کی فائرنگ سے 23 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔
لبنان کی وزارتِ صحت کا کہنا ہے کہ فائرنگ کے واقعات میں 22 افراد ہلاک اور 124 زخمی ہوئے ہیں۔
دوسری جانب اسرائیل نے کہا ہے کہ نومبر 2023 میں حزب اللہ سے ہونے والے جنگ بندی معاہدے کے مطابق 60 دن کے اندر اس کی فورسز کے لیے لبنان کے جنوبی علاقوں سے انخلا ممکن نہیں ہے۔
اتوار کو وائٹ ہاؤس نے بھی ایک بیان جاری کیا ہے کہ لبنان اور اسرائیل میں ہونے والا معاہدہ 18 فروری تک نافذ العمل رہے گا جب کہ امریکہ اس کی نگرانی کر رہا ہے۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ لبنان، اسرائیل اور امریکہ کی حکومتیں سات اکتوبر 2023 کے بعد گرفتار ہونے والے لبنانی قیدیوں کی واپسی کے لیے بھی بات چیت شروع کریں گی۔
اسرائیل نے حزب اللہ کے عسکریت پسندوں اور لبنان کی فوج پر الزام لگایا ہے کہ وہ جنگ بندی معاہدے کے تحت اپنے وعدے پورے کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ اس نے مشتبہ افراد کی جانب فائرنگ کی اور کئی افراد کو حراست میں بھی لیا ہے۔
فوج نے حراست میں لیے گئے افراد کی تعداد کا ذکر نہیں کیا۔
جنگ بندی معاہدے کے مطابق لبنان کی عسکری تنظیم حزب اللہ کو اسرائیلی سرحد سے شمال کی جانب پیچھے ہٹنا تھا جب کہ اسرائیل کو لبنان سے اپنے فوج کا انخلا کرنا تھا۔
لبنان میں موجود اقوامِ متحدہ کی امن افواج کے ایک بیان کے مطابق حالات مزید بگڑنے سے بچانا ضروری ہے۔
امن افواج کے بیان میں اسرائیلی فوج پر زور دیا ہے کہ وہ عام شہریوں پر فائرنگ سے گریز کرے۔
دوسری جانب بیان میں لبنانی عوام پر زور دیا گیا ہے کہ وہ لبنان کی فوج کے احکامات پر عمل کریں۔ بیان کے مطابق مزید تشدد سے سیکیورٹی کی نازک صورتِ حال کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔
علاوہ ازیں وسطی اور جنوبی غزہ میں موجود فلسطینیوں کو شمالی غزہ میں واپسی کے لیے انتظار کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جس کی وجہ حماس کی تحویل میں موجود ایک اسرائیلی یرغمال خاتون کی رہائی میں تاخیر ہے۔
اسرائیل نے غزہ کے وسط میں اس کو دو حصوں میں تقسیم کرنے والے نیٹزارم کوریڈور سے اس وقت تک فوجی انخلا سے انکار کیا ہے جب تک اربیل یہود نامی ایک خاتون یرغمالی کو رہا نہیں کر دیا جاتا۔ امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ انہیں رواں ہفتے رہا کر دیا جائے گا۔
جنگ بندی معاہدے میں ثالث کا کردار ادا کرنے والے قطر نے پیر کو بتایا ہے کہ حماس اربیل یہود کو جمعے سے قبل رہا کر دے گی جب کہ ان کے ہمراہ مزید دو یرغمالوں کی رہائی ہوگی۔
یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اسرائیلی حکام بھی پیر کو فلسطینیوں کو شمالی غزہ جانے کی اجازت دے دیں گے۔
اسرائیل کے وزیرِ اعظم بینجمن نیتن یاہو کے دفتر سے جاری ہونے والے بیان میں بھی اس معاہدے کی تصدیق کی گئی ہے۔
اسرائیلی فوج نے کہا ہے کہ پیر کی صبح سے پیدل افراد شمالی غزہ جا سکیں گے۔
غزہ کے وسط میں قائم العودہ اسپتال میں طبی حکام نے اتوار کو بتایا تھا کہ غزہ میں سمندر کے ساتھ ساتھ واقع شاہراہ پر ایک چوکی سے فلسطینیوں پر فائرنگ سے ایک شخص کی موت ہوئی ہے جب کہ 18 افراد زخمی ہوئے ہیں۔
اسرائیلی فوج نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ اس نے درجنوں افراد کے اجتماعات کی نشان دہی کی جس سے خطرہ تھا۔
غزہ اور لبنان میں جنگ بندی میں امریکہ نے کردار ادا کیا ہے جب کہ غزہ میں جنگ بندی سابق امریکی صدر جو بائیڈن کے مدتِ صدارت کے آخری ایام میں ہوئی تھی۔
امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مشرقِ وسطیٰ کے لیے ایلچی اسٹیو وٹکوف بھی غزہ میں جنگ بندی معاہدے کے مذاکرات میں شریک ہوئے تھے۔
اسرائیل اور حماس کے درمیان غزہ میں جنگ کا آغاز سات اکتوبر 2023 کو اس وقت ہوا تھا جب امریکہ اور بعض یورپی ممالک کی جانب سے دہشت گرد قرار دی گئی تنظیم حماس کے جنگجوؤں نے جنوبی اسرائیل پر دہشت گرد حملہ کیا تھا۔
اسرائیلی حکام کے مطابق اس حملے میں 1200 افراد ہلاک اور 250 کو یرغمال بنایا گیا تھا۔ اسرائیل سمجھتا ہے کہ غزہ میں اب بھی موجود لگ بھگ 90 یرغمالوں میں سے ایک تہائی کی موت ہو چکی ہے۔
حماس کے حملے کے جواب میں اسرائیل کی جانب سے شروع کی گئی جنگ میں حماس کے زیرِ انتظام غزہ کی وزارتِ صحت کے مطابق 47 ہزار سے زائد فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں۔
اس رپورٹ میں شامل بعض مواد خبر رساں اداروں ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ اور ’رائٹرز‘ سے لیا گیا ہے۔