لاہور ہائی کورٹ نے پنجاب کی صوبائی حکومت کو سانحہ ماڈل ٹاؤن کی تحقیقات کرنے والے عدالتی کمیشن کی رپورٹ منظرِ عام پر لانے کا حکم دیا ہے۔
یہ حکم جمعرات کو لاہور ہائی کورٹ کے جج مظاہر علی اکبر نقوی نے سانحۂ ماڈل ٹاؤن کے متاثرین کی جانب سے انکوائری رپورٹ منظرِ عام پر لانے سے متعلق مقدمے میں دیا۔
عدالت نے جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ کو عوامی دستاویز قرار دیتے ہوئے سیکرٹری داخلہ پنجاب کو سانحۂ ماڈل ٹاؤن پر بننے والے جسٹس باقر نجفی کمیشن کی رپورٹ منظر عام پر لانے کی ہدایت کی۔
اپنے تحریری حکم نامے میں عدالت نے کہا ہے کہ سانحۂ ماڈل ٹاؤن میں ہلاک ہونے والے افراد کے ورثا کا حق ہے کہ انہیں معلوم ہو کہ سانحہ کیوں پیش آیا اور پولیس نے کس کے حکم پر فائرنگ کی۔
سانحۂ ماڈل ٹاؤن 17 جون 2014ء کو لاہور میں پیش آیا تھا جس میں مبینہ طور پر پولیس کی فائرنگ اور تشدد سے 14 افراد ہلاک اور 100 سے زائد زخمی ہوئے تھے۔
ہلاک اور زخمی ہونے والے بیشتر افراد کا تعلق ڈاکٹر طاہر القادری کی جماعت 'پاکستان عوامی تحریک' سے تھا۔
پنجاب حکومت کی درخواست پر لاہور ہائی کورٹ کے جج جسٹس باقر نجفی نے واقعے کی جوڈیشل انکوائری کی تھی جس کی رپورٹ کے کچھ حصے جاری کیے گئے تھے لیکن پوری رپورٹ تاحال منظرِ عام پر نہیں آئی ہے۔
لاہور ہائی کورٹ کے حکم کے بعد پاکستان عوامی تحریک نے وزیرِاعلیٰ پنجاب شہباز شریف کے استعفے اور ان کا نام 'ایگزٹ کنٹرول لسٹ' میں ڈالنے کا مطالبہ کیا ہے۔
جمعرات کو منہاج القرآن سیکریٹریٹ میں پریس کانفرنس کے ذریعے اپنا رد عمل دیتے ہوئے عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہرالقادری نے کہا کہ وہ عدالت کو باقر نجفي کميشن رپورٹ عام کرنے کے حکم پر سلام پيش کرتے ہيں۔
انہوں نے کہا کہ اگر حکومت رپورٹ شائع نہيں کرتي تو وہ توہينِ عدالت کی مرتکب ہوگی۔
انہوں نے سوال کیا کہ اگر پنجاب حکومت سانحے میں ملوث نہیں تھی تو وہ عدالتی حکم کے خلاف انٹراکورٹ اپيل کيوں کرنا چاہتی ہے؟
طاہرالقادري نے کہا کہ انصاف کے ليے عوامي تحريک نے ريلياں نکاليں، اجتماعات کيے، ہر دروازہ کھٹکھٹايا ليکن ایف آئی آر میں درج 126 پولیس افسران کو اب تک سزا نہیں ملی۔
انہوں نے الزام عائد کیا کہ ایف آئی آر میں نامزد بیشتر افسران کو ترقی اور کورسز کے نام پر دوسرے ممالک بھجوا دیا گیا ہے۔
لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے پر وزیر قانون پنجاب رانا ثنا اللہ نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اگر جسٹس باقر نجفی کمیشن کی رپورٹ منظر عام پر لائی گئی تو اس سے معاشرے میں انتشار اور فرقہ واریت پھیلنے کا خدشہ ہے کیونکہ رپورٹ کے بہت سے حصوں پر حکومت کو اعتراض ہے۔