لاہور ہائی کورٹ کے فل بینچ نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کی تحقیقاتی رپورٹ جاری کرنے کے عدالتی فیصلے کے خلاف پنجاب حکومت کی اپیل مسترد کردی ہے۔
منگل کو پنجاب حکومت کی اپیل کا فیصلہ سناتے ہوئے عدالت نے حکومت کو 30 دن کے اندر تحقیقاتی رپورٹ منظرِ عام پر لانے کا حکم دیتے ہوئے کہا ہے کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے ذمہ داران کے خلاف غیر جانب دارانہ اور شفاف کارروائی کی جائے۔
ہائی کورٹ کے جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے رواں سال ستمبر میں پنجاب حکومت کو سانحۂ ماڈل ٹاؤن کے متاثرین کی درخواست پر سانحے کی تحقیقات کرنے والے عدالتی کمیشن کی رپورٹ منظرِ عام پر لانے کا حکم دیا تھا۔
عدالت کے اس حکم کے خلاف پنجاب حکومت نے لاہور ہائی کورٹ میں انٹرا کورٹ اپیل دائر کی تھی جس کی سماعت لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس عابد عزیز شیخ کی سربراہی میں قائم تین رکنی فل بینچ کر رہا تھا۔
بینچ نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد 24 نومبر کو فیصلہ محفوظ کیا تھا جو منگل کو سنایا گیا۔
عدالت نے پنجاب حکومت کے سانحے کے متاثرین کو تحقیقاتی رپورٹ کی نقول فراہم کرنے کا حکم بھی دیا ہے۔
لاہور کے علاقے ماڈل ٹاؤن میں 17 جون 2014ء کو پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ طاہر القادری کی رہائش گاہ کے باہر تجاوزات کے خلاف پولیس کے مبینہ آپریشن میں 14 افراد ہلاک اور 100 سے زائد زخمی ہوگئے تھے۔
ہلاک اور زخمی ہونے والوں میں سے بیشتر افراد کا تعلق پاکستان عوامی تحریک سے تھا۔
واقعے کے بعد پنجاب حکومت کی درخواست پر لاہور ہائی کورٹ کے جج جسٹس باقر نجفی نے واقعے کی جوڈیشل انکوائری کی تھی جن کی رپورٹ کے کچھ حصے جاری کیے گئے تھے البتہ پوری رپورٹ تاحال منظرِ عام پر نہیں آئی ہے۔
پاکستان عوامی تحریک سانحے میں ملوث افراد کے نام سامنے لانے اور ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کے لیے مسلسل احتجاج کرتی رہی ہے اور تحریک کے رہنماؤں کا الزام ہے کہ واقعے میں پنجاب حکومت ملوث تھی۔
پنجاب حکومت اور حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما اس الزام کی تردید کرتے ہیں۔ پنجاب حکومت کا موقف رہا ہے کہ تحقیقاتی رپورٹ مکمل نہیں جس کے باعث اسے منظرِ عام پر نہیں لایا جاسکتا۔