رسائی کے لنکس

لاہور: جماعت الدعوة کے دو رہنماؤں کی سزا معطل


ملزمان کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ انسدادِ دہشت گردی عدالت نے حقائق کا جائزہ لیے بغیر فیصلہ سنایا۔ لہذا فیصلہ کالعدم قرار دیا جائے۔ (فائل فوٹو)
ملزمان کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ انسدادِ دہشت گردی عدالت نے حقائق کا جائزہ لیے بغیر فیصلہ سنایا۔ لہذا فیصلہ کالعدم قرار دیا جائے۔ (فائل فوٹو)

لاہور ہائی کورٹ نے دہشت گردوں کی مالی معاونت اور زمینوں پر قبضے کے کیس میں گرفتار جماعت الدعوۃ کے دو ارکان حافظ عبد الرحمٰن مکی اور حافظ عبد السلام کی اپیلوں پر سماعت کرتے ہوئے ایک کیس میں سزا معطل کر دی ہے۔

عدالتِ عالیہ لاہور کے جج جسٹس اسجد جاوید گورال اور جسٹس وحید خان پر مشتمل دو رکنی بینچ نے کالعدم تنظیم جماعت الدعوۃ کے مرکزی رہنماوں حافظ عبدالرحمٰن مکی اور حافظ عبد السلام کی سزاؤں کے خلاف اپیل پر سماعت کی۔

اپیل میں دونوں ملزمان کے وکیل نصیر الدین نئیر نے عدالت سے سزاؤں کی معطلی کی استدعا کی۔

نصیر الدین نئیر نے عدالت کو بتایا کہ ملزمان کی سزا کے خلاف اپیل کے فیصلے تک سزائیں معطل کی جائیں۔

ان کے بقول لاہور کی انسدادِ دہشت گردی عدالت نمبر تین کے جج اعجاز احمد بٹر نے دہشت گردوں کی مالی معاونت کے الزام میں فیصلہ سنایا جس میں محکمہ انسدادِ دہشت گردی پنجاب نے مقدمہ نمبر 20/19 درج کر کے گواہان کے بیانات ریکارڈ کیے تھے۔

ملزمان کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ انسدادِ دہشت گردی عدالت نے حقائق کا جائزہ لیے بغیر فیصلہ سنایا جس پر عدالتِ عالیہ لاہور کے دو رکنی بینچ نے جماعت الدعوۃ کے حافظ عبدالرحمٰن مکی اور حافظ عبد السلام کی سزائیں معطل کر دیں۔

عدالت نے ملزمان کو مچلکوں کے عوض رہا کرنے کے احکامات جاری کیے۔ عدالت اِس کیس میں ضمانتی مچلکوں کا تعین بعد میں کرے گی۔

پنجاب کے ایڈووکیٹ جنرل احمد اویس کے مطابق حکومت لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کر سکتی ہے۔

کیا حافظ سعید کی گرفتاری غیر ملکی دباؤ کا نتیجہ ہے؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:01:34 0:00

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے احمد اویس نے کہا کہ جب بھی کسی کیس کا ایپلٹ بینچ بیٹھتا ہے تو فوجداری قانون کے تحت بینچ کو یہ اختیار حاصل ہوتا ہے کہ وہ کیس میں درخواست گزار کی میرٹ کے مطابق سزا کو معطل کر سکتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ایسے کیسز میں عدالتی فیصلے کو معطل کرنے کے لیے استدعا کی جاتی ہے۔ عام طور پر سزائیں اُس وقت معطل کر دی جاتی ہیں جب دستاویزات اور ریکارڈ سے بظاہر لگتا ہے کہ ملزم کو غلط سزا ہوئی ہے۔

مبصرین سمجھتے ہیں کہ عدالت کے اِس فیصلے سے پاکستان کے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کے معاملے پر کوئی خاص اثر نہیں پڑے گا۔

تجزیہ کار پروفیسر ڈاکٹر حسن عسکری کی رائے میں حکومت اِس عدالتی فیصلے کے خلاف اپیل دائر کر سکتی ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر حسن عسکری نے کہا کہ اگر بڑی عدالتوں میں شواہد کی کمی ہو تو چھوٹی عدالتوں کی نسبت بڑی عدالتیں زیادہ قانون کے مطابق چلتی ہیں۔

حسن عسکری کے مطابق چھوٹی عدالتیں بعض اوقات سزائیں دینے میں جلد بازی کا مظاہرہ بھی کرتی ہیں جب کہ ہائی کورٹ نے یہ فیصلہ شواہد کی بنیاد پر دیا ہو گا۔

ان کے بقول ایسا نہیں لگتا کہ یہ کیس ایف اے ٹی ایف کی پاکستان کے بارے میں پالیسی پر اثر انداز ہو گا کیوں کہ فنانشنل ایکشن ٹاسک فورس کی پاکستان کے بارے میں شرائط کچھ اور ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ایف اے ٹی ایف کی شرائط میں قانون سازی اور انتظامی معاملات کو بہتر بنانے کے علاوہ دیگر اقدامات شامل ہیں۔ حافظ سعید اور ان کے دیگر ساتھی ایف اے ٹی ایف کی شرائط کا براہِ راست حصہ نہیں ہیں۔

ایڈووکیٹ جنرل پنجاب احمد اویس کے بقول پاکستان، امریکہ اور دنیا بھر میں عدلیہ ایک آزاد ریاستی ادارہ ہے جس کے اوپر حکومت یا پارلیمنٹ کا کوئی اثر و رسوخ نہیں ہوتا۔ عدالتیں آزادانہ طور پر کسی بھی بات کو پرکھتی ہیں کہ آیا کسی کیس میں کیا شواہد ہیں اور کوئی سزا غلط یا درست ہوئی تھی۔

جماعت الدعوۃ کے سربراہ حافظ سعید گوجرانوالہ سے گرفتار
please wait

No media source currently available

0:00 0:00:37 0:00

ان کا کہنا تھا کہ عدالتی فیصلے حکومتی پالیسیوں کے مطابق نہیں ہوتے۔ حکومتِ پاکستان کی پالیسی بہت واضح ہے کہ کسی بھی دہشت گرد کو کوئی مدد یا تعاون فراہم نہیں کرے گی۔

وائس آف امریکہ نے اِس سلسلے میں جماعت الدعوة کا موقف جاننے کی بھی کوشش کی لیکن جماعت الدعوة کے عہدیداران نے بات کرنے سے انکار کر دیا۔

سرکاری وکلا کے مطابق پنجاب کے شہر اوکاڑہ میں ایک اراضی ہے۔ جس کے ایک حصے میں مسجد اور مدرسہ تعمیر کیا گیا تھا۔ یہ کالعدم تنظیم لشکرِ طیبہ اور کالعدم تنظیم الانفال ٹرسٹ کے زیرِ انتظام چلتے تھے۔ یہ اراضی ٹیرر فنانسنگ سے حاصل کی گئی تھی۔

یاد رہے پنجاب کے محکمۂ انسدادِ دہشت گردی (سی ٹی ڈی) نے جماعت الدعوۃ کے چاروں مرکزی رہنماؤں کو گزشتہ سال جولائی میں دہشت گردی کے لیے مالی معاونت کے الزام میں گرفتار کیا تھا۔

سی ٹی ڈی نے کالعدم جماعت الدعوۃ کے سربراہ حافظ سعید اور نائب امیر عبد الرحمٰن مکی سمیت 13 رہنماؤں کے خلاف انسدادِ دہشت گردی ایکٹ 1997 کے تحت دہشت گردی کے لیے مالی معاونت اور منی لانڈرنگ کے دو درجن سے زائد مقدمات درج کیے تھے۔ جس پر لاہور کی انسدادِ دہشت گردی عدالت نے رواں سال 18 جون کو عبدِ الرحمن مکی اور عبد السلام کو ایک ایک سال قید اور 20 ہزار روپے جرمانہ کی سزا سنائی تھی۔

دوسری جانب انسدادِ دہشت گردی سرگودھا کی عدالت نے کالعدم تنظیم داعش اور القاعدہ سے جڑے چار افراد کو پانچ، پانچ سال قید کی سزائیں سنائی ہیں۔

ترجمان سی ٹی ڈی پنجاب کے مطابق انسدادِ دہشت گردی سرگودھا کی عدالت نے دو الگ الگ کیسوں میں کالعدم تنظیم داعش سے جُڑے دو افراد فضل رازق اور محمد اللہ جب کہ کالعدم تنظیم القاعدہ سے تعلق رکھنے والے دو افراد عبدالوہاب اور مصطفٰی کمال کو دہشت گردوں کی مالی معاونت کے الزام میں پانچ، پانچ سال قید کی سزائیں سنائی ہیں۔

XS
SM
MD
LG