رسائی کے لنکس

قذافی کے خلاف خفیہ کارروائی بھی ہوسکتی ہے


معمر قذافی
معمر قذافی

خفیہ کارروائیوں میں بہت سی چیزیں شامل ہوسکتی ہیں مثلاً پراپیگنڈہ، خاموشی سے پیسہ دینا، انتخاب میں جوڑ توڑ کرنا، باغیوں کو مسلح کرنا اور تربیت دینا اور فوجی انقلاب کی حوصلہ افزائی کرنا۔ کیا لیبیا میں اس قسم کی کوئی خفیہ کارروائی کی جا رہی ہے، جو لوگ اس بار ے میں جانتے ہیں ظاہر ہے کہ وہ کچھ نہیں بتائیں گے کیوں کہ اس قسم کی کارروائی کی کامیابی کے لیے رازداری ضروری ہے۔ لیکن آج کل لیبیا میں افراتفری پھیلی ہوئی ہے۔

صدراوباما سے لے کر دوسر ے تمام اعلیٰ امریکی عہدے داروں تک نے واضح کر دیا ہے لیبیا کے لیڈر معمر قذافی کو رخصت ہو جانا چاہیئے۔ مسٹر قذافی پر دباؤ ڈالنے کے لیے امریکہ بہت سے طریقوں پر غور کر رہا ہے۔ ان کا تختہ الٹنے کے لیے کسی خفیہ پروگرام پر بھی عمل کیا جا سکتا ہے۔

بین الاقوامی بحران کے زمانے میں امریکی صدر واقعات پر اثرانداز ہونے کے لیے سفارتکاری سے لے کر بھر پور فوجی کارروائی تک بہت سے طریقوں میں سے کسی بھی طریقے کا انتخاب کر سکتے ہیں۔

لیکن ان کے درمیان ایک طریقہ کوورٹ ایکشن (Covert Action) یعنی خفیہ کارروائی کا بھی ہے۔ اس میں ایسے تمام اقدامات آتے ہیں جو چھپا کر کیے جائیں اور جن کا مقصد بیرونی ملکوں میں اقتصادی فوجی یا سیاسی تبدیلی لانا ہو۔

انٹیلی جنس کے ماہرین کی نظر میں یہ خفیہ کارروائیاں روایتی جاسوسی یا جاسوسی کے انسداد کی کارروائیوں سے مختلف ہوتی ہیں۔

خفیہ کارروائیوں میں بہت سی چیزیں شامل ہوسکتی ہیں مثلاً پراپیگنڈہ، خاموشی سے پیسہ دینا، انتخاب میں جوڑ توڑ کرنا، باغیوں کو مسلح کرنا اور تربیت دینا اور فوجی انقلاب کی حوصلہ افزائی کرنا۔

کیا لیبیا میں اس قسم کی کوئی خفیہ کارروائی کی جا رہی ہے، جو لوگ اس بار ے میں جانتے ہیں ظاہر ہے کہ وہ کچھ نہیں بتائیں گے کیوں کہ اس قسم کی کارروائی کی کامیابی کے لیے رازداری ضروری ہے۔ لیکن آج کل لیبیا میں افراتفری پھیلی ہوئی ہے۔

جارج ٹاؤن یونیورسٹی کی پروفیسر جینفر سمس انٹیلی جنس کے امور کی ماہر ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ کوئی خفیہ کارروائی اس وقت تک نہیں کی جانی چاہیے جب تک یہ واضح نہ ہو کہ اس کا نتیجہ کیا ہوگا یا کم از کم کیا ہونا چاہیئے۔’’میں سمجھتی ہوں کہ اس قسم کی کارروائی جمناسٹک کی طرح ہے۔ اگر آپ کو شروع سے آخر تک، بحفاظت زمین پر اترنے کا یقین نہ ہو تو آپ کو اس قسم کی کارروائی شروع نہیں کرنی چاہیئے۔ میرے خیال میں لیبیا میں صورت حال اب تک بالکل واضح نہیں ہے۔ میں نہیں جانتی کہ وہاں انٹیلی جنس جمع کرنے کے ہمارے پاس کیا انتظامات ہیں لیکن موجودہ حالات میں ہماری کامیابی بہت مشکل ہو گی‘‘۔

خفیہ کارروائیاں عام طور سے سی آئی اے کرتی ہے۔ چارلس ایلین جو سی آئی اے میں چالیس سال کام کر چکے ہیں کہتے ہیں کہ خفیہ کارروائیوں کی تجاویز سی آئی اے کا عملہ نہیں دیتا بلکہ یہ پالیسی سازوں کا کام ہے ۔ سی آئی اے ان کی تجاویز کو عملی جامہ پہناتی ہے۔’’

سی آئی اے شاذونادر ہی خفیہ کارروائی کی تجویز دیتی ہے۔ عام طور سے یہ ہدایات صدر اور سینیئر پالیسی سازوں کی طرف سے جیسے وزیرِ خارجہ، وزیرِ دفاع، یا نیشنل سیکورٹی کونسل کی طرف سے آتی ہیں۔ بعض صدور کی طرف سے بہت محدود تعداد میں ایسی تجاویز آئی ہیں جب کہ بعض دوسرے صدور کے زمانے میں جب یہ محسوس کیا گیا کہ خطرہ بہت زیادہ ہے اس قسم کے زیادہ اقدامات کیے گئے ہیں‘‘۔

سمس کہتی ہیں کہ صدر کاعام رجحان یہ ہوتا ہے کہ خفیہ کارروائی کا طریقہ استعمال کرنا ٹھیک رہے گا۔’’اس طریقے کا فائدہ تو یہ ہے کہ آپ طاقت کے کم از کم استعمال سے مطلوبہ نتائج حاصل کر سکتے ہیں۔ اور چونکہ یہ کام امریکہ کا نام آئے بغیر خفیہ طریقے سے کیا جاتا ہے اس لیے اگر اس اقدام کے نتیجے میں کچھ لوگ ناخوش ہوتےہیں تو بھی امریکہ پر کوئی الزام نہیں آتا۔ اس طریقے کا نقصان بھی وہی ہے جو اس کا فائدہ ہے۔ چونکہ یہ کام خفیہ طریقے سے کیا جاتا ہے اس لیے اگر بعد میں یہ راز افشا ہوجاِئے کہ اس میں امریکہ کا ہاتھ ہے تو اس کا رد عمل بہت زیادہ سخت ہوتا ہے اس سے بھی زیادہ اگر یہ کارروائی کھلے عام کی گئی ہوتی‘‘۔

کچھ خفیہ کارروائیاں ناکام رہیں۔ ان میں1961 میں کیوبا پر بےآف پگس(Bay of Pigs) کا حملہ شامل ہے۔ بعض دوسری کارروائیوں جیسے 1980 کی دہائی میں افغانستان پر سوویت قبضے کے خلاف مجاہدین کی مدد کو کامیاب سمجھا جاتا ہے۔

1975 میں امریکہ کی طرف سے بعض غیر ملکی لیڈروں کو قتل کرنے کی سازشوں کا پتہ چلا۔ ان سازشوں کے افشا ہونے کے بعد جو لے دے ہوئی اس کے نتیجے میں خفیہ کارروائیوں کے لیے سخت ضابطے بنائے گئے ۔ ان میں خفیہ کارروائیوں کے لیے صدر کی پیشگی منظوری اور امریکی کانگریس کے آٹھ اہم ارکان کو جو انٹیلی جنس کے امور کی نگرانی کرتے ہیں مطلع کرنا شامل ہے۔

XS
SM
MD
LG