رسائی کے لنکس

لیبیا: حکومت میں ٹوٹ پھوٹ کے اثرات


موسیٰ کوسا
موسیٰ کوسا

لیبیا کے وزیرِخارجہ نے معمر قذافی کا ساتھ چھوڑ دیا ہے۔ مغربی ملکوں کے عہدے داروں نے ان کےاعلان کا خیر مقدم کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ اس بات کی علامت ہے کہ قذافی کی حکومت میں ٹو ٹ پھوٹ شروع ہو گئی ہے۔ تا ہم کرنل قذافی کی فوجوں نے باغیوں پر جوابی حملہ کیا ہے اور انہیں پیچھے دھکیل دیا ہے۔

لیبیا کے وزیر خارجہ بننے سے پہلے، موسیٰ کوسا لیبیا میں انٹیلی جینس کے سربراہ تھے۔ یوں ان کا شمار کرنل قذافی کے قریب ترین ساتھیوں میں ہوتا تھا۔ انٹیلی جنس کی پرائیویٹ فرم سٹارٹفار میں مشرق وسطیٰ کی تجزیہ کار ریوا بحلہا کہتی ہیں کہ کوسا کے منحرف ہو جانے سے مغربی ملکوں کو انٹیلی جنس کی بیش قیمت معلومات مل سکتی ہیں۔ ’’وہ ایسی شخصیت ہیں جن کے بارے میں مغرب کی ہر انٹیلی جنس ایجنسی کے پاس موٹی سی فائل موجود ہے۔ انہیں سب معلوم ہے کہ کون کہاں دفن ہے۔ ان کے پاس بہت سی معلومات ہوں گی جو اتحادی ممالک قذافی کے خلاف استعمال کر سکیں گے‘‘۔

سی آئی اے کے سابق انٹیلی جنس افسر ایملے نکلیح (Emile Nakleh) کہتے ہیں کہ کرنل قذافی نے پالیسی کے بارے میں جتنے بھی فیصلے کیے، ان سب میں کوسا کو مرکزی حیثیت حاصل تھی۔ وہ قذافی حکومت کے کام کے طریقوں سے بخوبی واقف ہیں۔ ’’برسوں سے وہ قذافی کے قریب ترین ساتھیوں میں شامل رہے ہیں۔ اور بات صرف قربت کی نہیں۔ لیبیا کے بارے میں جتنے بھی اچھے برے اہم فیصلے ہوئے ہیں، ان میں کوسا کا دخل رہا ہے‘‘۔

بین الاقوامی پابندیاں اٹھائے جانے کے عوض نیوکلیئر اسلحہ کا پروگرام ختم کرنے کے لیے مغربی ملکوں کے ساتھ مذاکرات کی قیادت کوسا نے کی تھی۔ لیکن تجزیہ کار کہتے ہیں کہ لیبیا نے دہشت گردی کی سرگرمیوں میں جو مدد دی، اس کی ذمہ داری بھی سیکورٹی چیف کی حیثیت سے، ان پر عائد ہوتی ہے۔

تجزیہ کار کہتے ہیں کہ موسیٰ کوسا کو کرنل قذافی سے منحرف کرنے کی کوششیں کچھ عرصے سے جاری تھیں۔ ایملے کہتے ہیں کہ کوسا کے عہدے اور ان سے ملنے والی معلومات کی روشنی میں ان کو نشانہ بنانے کی بات سمجھ میں آتی ہے۔ ’’میں نہیں سمجھتا کہ یہ مکمل طور سے ان کا اپنا فیصلہ تھا۔ میرا خیال ہے کہ ان کے اور مغربی ملکوں کے بعض لوگوں کے درمیان پس پردہ رابطے جاری ہوں گے۔ سچی بات یہ ہے کہ مجھے بڑی حیرت ہوگی اگر ہماری انٹیلی جنس سروسز اور ہماری حکومت نے ان سے رابطہ قائم کرنے اور قذافی کا ساتھ چھوڑنے میں ان کی حوصلہ افزائی نہیں کی‘‘۔

کوسا برطانیہ میں نمودار ہوئے۔ تجزیہ کار کہتے ہیں کہ قوی امکان یہی ہے کہ برطانیہ کی انٹیلی جنس سروس MI-6 نے ان کو توڑنے میں اہم کردار ادا کیا۔ وہ 1980 میں برطانیہ میں لیبیا کے سفیر بھی رہ چکے ہیں۔

کوسا کی آمد کا اعلان کرتے ہوئے برطانوی وزیرِ خارجہ ولیم ہیگ نے کہا کہ ان کا منحرف ہو جانا اس بات کی علامت ہے کہ کرنل قذافی کی حمایت بہت تیزی سے ختم ہو رہی ہے۔ ’’ان کے استعفے سے ظاہر ہوتا ہے کہ قذافی کی حکومت، جس میں پہلے ہی بہت سے لوگ ساتھ چھوڑ رہے تھے، اب دباؤ میں ہے اور اس میں اندر سے ٹوٹ پھوٹ شروع ہو گئی ہے۔ اب قذافی خود سے یہ سوال کر رہے ہوں گے کہ ساتھ چھوڑنے والوں میں اب کس کی باری ہے‘‘۔

اطلاعات کے مطابق لیبیا کے بعض دوسرے عہدے دار بھی منحرف ہو گئے ہیں۔ لیکن ریوا کہتی ہیں کہ ان میں سے بعض اطلاعات غلط ثابت ہوئی ہیں۔ ’’میرے خیال میں منحرف ہونے کے واقعات کے بارے میں کس حد تک مبالغے سے کام لیا جارہا ہے۔ یورپی ملکوں کے دارالحکومتوں سے اور واشنگٹن سے اس قسم کے بیانات جاری کیے گئے ہیں کہ یہ واضح علامتیں ہیں اس بات کی کہ قذافی بالکل الگ تھلگ ہو کر رہے گئے ہیں اور چند دنوں میں ان کا صفایا ہو جائے گا۔ یہ صحیح ہے کہ قذافی بڑی مشکل میں ہیں لیکن میں نہیں سمجھتا کہ ان کی حالت اتنی نازک ہے جتنی بعض لوگ بتا رہے ہیں‘‘۔

ایملے کہتے ہیں کہ اصل چیز جس پر نظر رکھی جانی چاہیئے وہ یہ ہے کہ کیا کرنل قذافی کا کوئی بیٹا ان سے الگ ہونے کے بارے میں سوچے گا۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر ایسا ہوا، تو یہ بالکل واضح علامت ہو گی کہ ان کے دن پورے ہوگئے۔

XS
SM
MD
LG