قرضہ معافی کیس میں چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے جن لوگوں نے قرض معاف کرائے واپس کریں ممکن ہے یہ رقم بینکوں کو واپس نہ کریں اور ملکی قرضہ اتارنے کے لیے استعمال کریں۔۔۔۔ رقم جمع کرانےکیلئے سپریم کورٹ میں اکاؤنٹ کھولا جائے گا، معاف کروائی گئی رقم کا 75 فیصد جمع کروانا ہوگا۔۔۔ بینکنگ کورٹ جانے والے مقدمات میں جائیدادیں ضبط ہوں گی۔
چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے قرضہ معافی کیس کی سماعت کی۔
دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے بیرونی قرضے لیکر ہر شہری کو 1 لاکھ 17 ہزار کا مقروض کر دیا گیا، لوگ اپنے بچوں کے لیے موت کو بھی گلے لگا لیتے ہیں اور ہم اپنے بچوں پر قرضوں کا بوجھ لادھ رہیں ہیں، میں اپنی قوم کے لئے مرنے کے لئے تیار ہوں۔ ملکی قرضہ اتارنے کے لیے ہم ججز پہلے حصہ ڈالیں گے
چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے قوم کا پیسہ سب کو واپس کرنا ہوگا، میرا کوئی قریبی عزیز بھی ہو تو رقم واپس کرنی ہوگی۔ اگر قرض معاف کروانے والے ازخود رقم واپس کریں تو مارک اپ نہیں دینا ہو گا۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا ہے کہ قرضہ معاف کرانے والے تمام افراد بریف کیس میں رقم ڈال کر یہاں لے آئیں،اگر قوم کے پیسے واپس نہ لا سکے تو کرسی پر بیٹھنے کا کوئی حق نہیں ہے۔
جسٹس ثاقب نثار نے مزید ریمارکس دیئے کہ ہم قرض معافی سے متعلق تمام دو سو بائیس مقدمات بینکنگ کورٹس کو بھجوا دیتے ہیں۔ پچیس فیصد قرض معافی کی رقم سپریم کورٹ کا اکاؤنٹ کھول کر تین ماہ میں جمع کرانے کا حکم دیں گے، قرض معاف والی رقوم صوابدیدی فنڈز میں نہیں جانیں دیں گے۔
جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ ینکنگ کورٹس کو چھ ہفتوں میں مقدمات کا فیصلہ کرنے کی ہدایت دیں گے، بینکنگ کورٹس خود جائزہ لیں گی، یہ بھی ممکن ہے کہ ہم خود کوئی مارک اپ طے کریں جبکہ تمام فریقین کو ایک موقع فراہم کرتے ہیں جبکہ بینکنگ کورٹس کو چھ ہفتوں میں مقدمات کا فیصلہ کرنے کی ہدایت دیں گے۔
چیف جسٹس نے واضح کیا رقم جمع کرانےکیلئے سپریم کورٹ میں اکاؤنٹ کھولا جائے گا، دیکھیں گے سرکاری خزانے میں رقم کب تک جمع کروانی ہے؟ بینکنگ کورٹ جانے والے مقدمات میں جائیدادیں ضبط ہوں گی۔ معاف کروائی گئی رقم کا 75 فیصد جمع کروانا ہوگا، کمپنیاں کل تک تحریری جواب دیں بینکنگ کورٹ جانا ہے یا رقم واپس دینی ہے۔ کیس کی سماعت کل دوبارہ ہوگی۔
جسٹس ریٹائرڈ جمشید کمیشن نے خلاف ضابطہ قرضے معاف کرانے والی 222 کمپنیوں کے خلاف مزید کارروائی کی سفارش کی تھی۔
کمیشن کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ222 کمپنیوں نے 18 اعشاریہ 717 ارب کا قرضہ لیا اور قرضے کی رقم کا 8 اعشاریہ 949 ارب روپے واپس کیے۔
رپورٹ کے مطابق222 کمپنیوں کی جانب اس وقت 11 اعشاریہ 769 ارب روپے کا قرض واجب الادا ہے۔
تفصیلات میں کہا گیا تھا کہ ان کمپنیوں پر بینک سود کی مد میں 23 اعشاریہ 572 ارب روپے بھی واجب الادا ہیں۔
کمیشن کے مطابق مجموعی طور پر 620 قرضہ معافی کے مقدمات میں 84 ارب روپے معاف کیے گئے،222 کمپنیوں کے 35 ارب روپے کے قرض سرکلر نمبر 2002/29 کے تحت معاف ہوئے۔