اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے مطابق، اگست کے اواخر تک ملک کا مجموعی قرضہ گزشتہ سال اسی عرصے کے دوران کی شرح سے 11.23 فیصد زیادہ ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق، مرکزی بینک کے ہفتہ کو بیان کردہ اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ وفاقی حکومت بدستور بینکوں سے قرضوں پر انحصار کر رہی ہے، جب کہ حکومت یہ دعویٰ کرتی آئی ہے کہ ماضی کی نسبت ملک کی معیشت میں نمایاں بہتری آئی ہے۔
ماہرین نے اس اضافے کی وجوہات پر بات کرتے ہوئے، اخراجات، پروجیکشن سے زیادہ اور دوسری طرف محصولات، پروجیکشن سے کم ہونے کی جانب توجہ دلائی ہے۔ وہ اسے خسارے میں اضافے، ٹیکسوں کی کم وصولی اور بیرونی سرمایہ کاری کے فقدان کا شاخسانہ قرار دیتے ہیں۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور پلاننگ کمیشن کے ڈپٹی چیرمین، سرتاج عزیز نے اردو سروس سے بات کرتے ہوئے اپنی حکومت کی اقتصادی پالیسیوں کا دفاع کیا۔
انہوں نے کہا کہ اس اضافے کی بیشتر وجہ سی پیک کے قرضے ہیں۔ بقول ان کے، ''ڈولپمنٹ ایک مثبت قدم ہے۔ ان میں سے کچھ سے توانائی کے شعبے میں سرمایہ کاری ہے جس کے نتیجے میں توانائی کا بحران کافی حد تک حل ہوا ہے''۔
سرتاج عزیز نے کہا ہے کہ اگر قرضوں کی شرائط آسان ہوں، ادائیگی بیس، پچیس سال پر محیط ہو اور شرح سود کم ہو تو ایسے قرضے معیشت پر بوجھ نہیں بنتے اور ترقیاتی منصوبوں کے نتیجے میں شرح افزائش میں ایک یا ڈیڑھ فیصد کا اضافہ، خود اس کی تلافی کر دیتا ہے۔
انہوں نے تجزیہ کاروں کی نکتہ چینی اور تجارت و صنعت کی فیڈریشن کے صدر، زبیر طفیل کے ہفتے کو دئیے جانے والے بیان پر بھی بات کی۔ ان کا انٹرویو سننے کے لئے نیچے دئے ہوئے لنک پر کلک کریں۔