سندھ کی ایک اہم جماعت عوامی نیشنل پارٹی نے کہا ہے کہ ان کی پارٹی مقامی حکومتوں کے بل کی مخالفت کرے گی ۔
پارٹی ترجمان قادر خان نے کراچی میں وائس آف امریکہ کے نمائندے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گردی کے واقعات میں ایک سال کے دوران ان کے نو سے زائد عہدیدار مارے جاچکے ہیں، جبکہ اسی مدت میں پارٹی کے گیارہ دفاتر بھی نذر آتش کئے گئے۔ لیکن، اُن کے بقول، ہمارے پارٹی رہنماوٴں کو اب تک سیکورٹی فراہم نہیں کی گئی، حالانکہ رہنماؤں کی سیکورٹی کے لئے وزارت داخلہ کوپارٹی قیادت کی جانب سے درخواست بھی کی جاچکی ہے، لیکن تاحال اس سلسلے میں کچھ نہیں کیا جاسکا۔
ادھرعوامی نیشنل پارٹی کےسندھ بھر میں واقع تمام دفاترجمعرات کی شب سے تاحال بند ہیں۔
گزشتہ روز دفاقی وزیر داخلہ رحمن ملک نے عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات زاہد خان کو مطلع کیا تھا کہ حساس اداروں نے رپورٹ دی ہے کہ اے این پی قیادت سمیت اس کے دفاتر پر دہشت گردانہ کاروائی کی اطلاع ہے جس کے بعد تین دن کے لئے صوبے کے تمام دفاتر کو بند کردیا گیا۔
وی او اے کے نمائندے نے جب اس حوالے سے پارٹی سربراہ شاہی سید سے رابطہ کرنے کو کوشش کی تو پارٹی ترجمان قادر خان نے بتایا کہ شاہی سید بیرون ملک ہیں اور ان سے فون پر رابطہ نہیں ہوسکتا۔ تاہم، ترجمان نے دفاتر بند ہونے سے متعلق خبر کی تصدیق کرتے ہوئے بتا یا کہ دفاتر تین روز تک بند رہے ہیں ۔ ان کا کہنا تھا کہ موجودہ حالات کے سبب پارٹی انتخابات بھی ملتوی کردیئے گئے ہیں۔
مزید استفسار پر ترجمان نےبتایا کہ فی الوقت کراچی میں محلے، تحصیل اورضلعی سطح پر اے این پی کے455 وارڈز ہیں جبکہ اندرون سندھ کے شہروں جامشورو ، میر پور خاص ، ٹنڈو محمد خان اور نواب شاہ میں 75 سے زائد وارڈز موجود ہیں جو سب کے سب تین دنوں کے لئے بند کردیئے گئے ہیں۔
ایک سوال پر ترجمان کا کہنا تھا کہ اگر 2001ء کے مقامی حکومتوں کے بل کوسندھ اسمبلی میں پیش کیا گیا تو عوامی نیشنل پارٹی اس کی مخالفت کرے گی۔ایک اور سوال پر قادر خان کا کہنا تھا کہ ’گزشتہ تین سال سے حکمران جماعت پیپلزپارٹی سیاسی مصلحت کا شکار ہے ، ایم کیو ایم روٹھتی ہے تو پیپلزپارٹی کی تمام تر توجہ اسے منانے پر مرکوز ہوجاتی ہے اور امکان ہے کہ آئندہ بھی یہی سلسلہ جاری رہے گا۔‘
قادر خان کا کہنا تھا کہ کراچی کو تین اضلاع میں تقسیم کرنے سے متعلق ہیومن رائٹس کی تجویز تمام سیاسی جماعتوں کی طرح اے این پی نے بھی مسترد کی ہے۔ اِس حوالے سےاُن کا کہنا تھا کہ انہوں نےہیومن رائٹس کمیشن سے رابطہ کیا ہے جس پر کمیشن کے عہدیدران نے بتایا کہ یہ صرف ایک تجویز تھی۔ تاہم، میڈیا پر غلط رپورٹنگ کے باعث غلط فہمی نے جنم لیا ۔
انہوں نےکہا کہ کراچی میں جاری ’ٹارگٹڈ آپریشن‘ پرتحفظات ضرورہیں مگر اس کے باوجود ان کی پارٹی رینجرز کےساتھ ہے۔ تاہم، پولیس میں بعض بدعنوان افسران ضرور موجود ہیں جو کروڑوں روپوں کے اثاثوں کےمالک بن چکے ہیں، لیکن ان سے باز پرس کرنے والا کوئی نہیں جس کا سپریم کورٹ آف پاکستان کو نوٹس لینا چاہیئے ۔