بھارت کی ریاست اُتر پردیش کے شہر بنارس کی ایک عدالت نے گزشتہ ہفتے اپنے ایک فیصلے میں محکمۂ آثار قدیمہ کو گیان واپی مسجد کا سروے کرنے کا حکم دیا ہے۔ تاہم سنی وقف بورڈ نے عدالت کے اس فیصلے کو الہ آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کر دیا ہے۔
آٹھ اپریل کو دیے جانے والے ماتحت عدالت کے فیصلے کے بعد وشوا ناتھ مندر اور گیان واپی مسجد کا تنازع ایک بار پھر بھارت میں موضوعِ بحث بن گیا ہے جب کہ مسلم تنظیموں نے مسجد کے مستقبل سے متعلق خدشات کا اظہار کیا ہے۔
یاد رہے کہ بھارت کی سپریم کورٹ نے گزشتہ برس بابری مسجد کے تنازع کا فیصلہ سناتے ہوئے مسجد کی زمین پر مندر تعمیر کرنے کی اجازت دی تھی جب کہ مسجد کے لیے متبادل جگہ فراہم کرنے کا حکم دیا تھا۔
سپریم کورٹ کے اس فیصلے پر مسلم تنظیموں نے غصے کا اظہار کیا تھا۔ اور اب ایک مرتبہ پھر بھارت میں گیان واپی مسجد سے متعلق عدالتی احکامات کے بعد مسجد اور مندر کے تنازع پر دوبارہ بحث چھڑ گئی ہے۔
اپریل 1984 میں بھارت کے مختلف علاقوں سے 558 ہندو مذہبی رہنماؤں نے تنظیم وشوا ہندو پریشد (وی ایچ پی) کے ساتھ مل کر دہلی میں پہلی ’دھرم سنسد‘ یا مذہبی پارلیمنٹ منعقد کی تھی۔
بھارتی اخبار ’ہندوستان ٹائمز‘ کے مطابق اس مذہبی پارلیمنٹ کی بنیادی قراردادوں میں بنارس (وارانسی)، متھرا اور ایودھیا کے ہندو مذہبی مقامات کی 'واپسی' کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
اُتر پردیش کے شہر ایودھیا میں بابری مسجد کے بارے میں یہ دعویٰ تھا کہ یہ ہندو دیوتا 'رام' کی جائے پیدائش پر موجود عبادت گاہ کو منہدم کر کے بنائی گئی ہے۔
اسی طرح ریاست اترپردیش میں 'متھرا' کے مقام پر موجود 'کرشن مندر' کے ساتھ شاہی عید گاہ واقع ہے۔
ہندوؤں کا عقیدہ ہے کہ مندر کے مقام پر ہندو مذہب کی مقدس ہستی 'شری کرشن' کی پیدائش ہوئی تھی اور اس سے متصل شاہی عیدگاہ کے بارے میں ہندوؤں کا دعوٰی ہے کہ یہ مندر کے احاطے میں تعمیر کی گئی تھی۔
اُتر پردیش ہی کے شہر وارانسی (بنارس) میں کاشی کے مقام پر 'وشوا ناتھ مندر' کے احاطے سے جڑی 'گیان واپی' مسجد کے بارے میں بھی 'دھرم سنسد' نے دعویٰ کیا تھا کہ یہ ہندوؤں کے مقدس مقامات کی زمین پر بنائی گئی ہے۔
وشوا ہندو پریشد اور دیگر ہندو گروہوں کی جانب سے گیان واپی مسجد اور شاہی عید گاہ کا معاملہ ماضی میں بھی اٹھایا جاتا رہا ہے۔ بابری مسجد کے مقام پر رام مندر کی تعمیر کا مطالبہ کرنے والوں کا بھی دعویٰ رہا ہے کہ پورے بھارت میں ایسی تین ہزار مساجد ہیں جو مندروں کی جگہ پر بنائی گئی ہیں۔
سن 1990 کی دہائی میں جہاں ایودھیا کی رام جنم بھومی اور بابری مسجد کا تنازع عروج پر تھا تو دوسری جانب گیان واپی مسجد اور شاہی عید گاہ کی جگہ دوبارہ حاصل کرنے کا مطالبہ بھی زور پکڑنے لگا تھا۔
مبصرین کے مطابق مذکورہ تحریک کے بعد یہ نعرہ بھی سامنے آیا 'ایودھیا تو صرف جھانکی(جھلکی) ہے، کاشی متھرا باقی ہے۔'
ہندو تنظیموں کی جانب سے ایودھیا، کاشی اور متھرا سے متعلق مطالبات سامنے آنے کے بعد کانگریس سے تعلق رکھنے والی وزیرِ اعظم پی وی نرسیمہاراؤ کی حکومت نے 1991 میں مذہبی عبادت گاہوں کے بارے میں ایک ایکٹ ’پلیسز آف ورشپ‘ پاس کیا تھا۔
اس قانون میں قرار دیا گیا تھا کہ تمام مذہبی عبادت گاہوں کی 15 اگست 1947 کی حیثیت برقرار رکھی جائے گی۔ تاہم دائیں بازو کی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی نے اس قانون کی مخالفت کی تھی۔
گیان واپی مسجد: کب کیا ہوا؟
ریاست اترپردیش کے شہر وارانسی (بنارس) میں گنگا کے کنارے کاشی کے وشوا ناتھ مندر کو ہندو مذہب کے دیوتا 'شیو' کا اہم ترین مندر تصور کیا جاتا ہے اور اس کی تاریخ سیکڑوں سال قدیم بتائی جاتی ہے۔
مؤرخین کے مطابق یہ مندر کئی مرتبہ منہدم کیا گیا اور تعمیر ہوا۔ بعض مؤرخین کا دعویٰ ہے کہ مغل حکمران اورنگزیب عالمگیر نے 1669 میں وشیواناتھ مندر کے ایک حصے کو منہدم کروا کر یہاں مسجد تعمیر کرائی تھی۔ یہ دعویٰ بھی کیا گیا کہ مسجد کی تعمیر میں منہدم ہونے والے مندر کا تعمیراتی سامان بھی استعمال ہوا۔
اس کے لگ بھگ 100 برس بعد اِندور کی رانی اہلیا ہولکر نے 1780 میں کاشی وشیوا ناتھ مندر کی از سرِ نو تعمیر کرائی۔
بعد ازاں 1991 میں ایڈوکیٹ وجے شنکر رستوگی نے عدالت میں درخواست دائر کی کہ یہ مندر 2050 سال قبل بادشاہ وکرم ادیتیہ نے تعمیر کرایا تھا جسے1664 میں اورنگزیب نے مہندم کرا دیا تھا۔
درخواست میں کہا گیا تھا کہ 'مندر کی زمین' ہندوؤں کو دی جائے۔ اس کے علاوہ یہ دلیل بھی دی گئی کہ گیان واپی مسجد پر ’پلیسز آف ورشپ‘ ایکٹ کا اطلاق نہیں ہوتا کیوں کہ یہ مسجد ایک ایسے مندر کی جگہ پر تعمیر کی گئی تھی جو تاحال موجود ہے۔
سن 1998 میں گیان واپی مسجد کی انتظامی کمیٹی نے الہ آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی تھی جس میں کہا گیا کہ مسجد کو 'پلیسز آف ورشپ ایکٹ' کے تحت تحفظ حاصل ہے۔ اس درخواست کے بعد ہائی کورٹ نے ماتحت عدالت کی اس معاملے پر کارروائی روک دی تھی اور اس کے بعد یہ کیس 22 برس تک التوا میں رہا۔
سن 2019 میں وجے شنکر رستوگی نے ایک مرتبہ پھر گیان واپی مسجد کا محکمۂ آثارِ قدیمہ سے سروے کرانے کی دراخوست عدالت میں دائر کی۔ درخواست میں کہا گیا کہ 1998 میں ایڈیشنل ڈسٹرک جج نے ماتحت عدالت کو اس جگہ کی مذہبی حیثیت کا تعین کرنے کے لیے گیان واپی کمپاؤنڈ سے شواہد جمع کرنے کی ہدایت دی تھی تاہم الہ آباد ہائی کورٹ کی جانب سے جاری ہونے والے حکم امتناع کے بعد مزید کارروائی نہیں ہو سکی۔
متعلقہ ہائی کورٹ کی جانب سے ٹرائل کورٹ میں اس معاملے پر حکم امتناع ہے اور تفصیلی فیصلہ ابھی جاری ہونا باقی ہے۔ اس کے باوجود بنارس کی عدالت نے آٹھ اپریل 2021 کو مسجد کے آرکیالوجیکل سروے کا حکم نامہ جاری کر دیا ہے۔
عدالت کے مطابق صرف محکمۂ آثارِ قدیمہ کا سروے ہی عدالت کے سامنے حقائق لا سکتا ہے جس سے ہندو اور مسلم دونوں کی تشفی ہو جائے گی اور یہ معاملہ ہمیشہ کے لیے حل ہو جائے گا۔
اس کے علاوہ سروے میں بنائی جانے والی کمیٹی میں ترجیحی بنیاد پر دو 'اقلیتی' ارکان کو بھی شامل کرنے کا کہا گیا ہے۔
گیان واپی مسجد کی انتظامی کمیٹی 'انجمن انتظامیہ مسجد' نے وجے شنکر رستوگی کی درخواست کی مخالفت کی ہے جب کہ یوپی سنی وقف بورڈ نے عدالتی فیصلے کو الہ آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کر دیا ہے۔
یوپی سنی سینٹرل وقف بورڈ کے چیئرمین ظفر فاروقی نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ بنارس کی ماتحت عدالت کا فیصلہ 'پلیسز آف ورشپ ایکٹ 1991' کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ ہمارے نزدیک اس مسجد کی حیثیت واضح ہے اور اس پر کوئی سوال نہیں اٹھایا جاسکتا۔
کاشی وشوا ناتھ کوریڈور کا اس معاملے سے کیا تعلق ہے؟
بھارت کے وزیرِ اعظم نریندر مودی بنارس سے لوک سبھا کے رکن منتخب ہوئے ہیں۔ انہوں نے مارچ 2019 میں گنگا کے کنارے سے کاشی وشوا ناتھ مندر تک 'کوریڈور' بنانے کے منصوبے کا افتتاح کیا تھا۔
اس منصوبے کے مطابق راہداری مکمل ہونے سے گنگا کے گھاٹ سے مندر واضح دیکھا جاسکے گا۔
بھارتی ویب سائٹ ’دی پرنٹ‘ میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق منصوبے کے افتتاح سے قبل یوپی میں یوگی ادیتیہ ناتھ کی حکومت کی جانب سے 2017 میں اس منصوبے پر عمل درآمد کے لیے اقدامات شروع کر دیے گئے تھے جس کے باعث گیان واپی مسجد پر تنازع نے شدت اختیار کرلی تھی۔
سال 2018 میں راہداری منصوبے کے ایک ٹھیکے دار نے گیان واپی مسجد کے گیٹ نمبر چار کے پاس ایک چبوترا منہدم کر دیا تھا جس پر مسلمانوں نے احتجاج کیا تھا۔
احتجاج کے بعد حکام نے فسادات کے خدشے کے پیشِ نظر چبوترے پر سنی وقف بورڈ کی ملکیت بحال کر دی تھی تاہم اس واقعے کے بعد مسجد کی انتظامی کمیٹی نے اپنے خدشات کا اظہار کیا تھا۔
مذکورہ واقعے سے متعلق 12 مئی 2019 کو ’ٹائمز آف انڈیا‘ میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق مسجد کا چبوترا منہدم ہونے کے واقعے کے بعد گیان واپی مسجد انتظامیہ کے جوائنٹ سیکریٹری ایس ایم یاسین نے اس خدشے کا اظہار کیا تھا کہ گیان واپی مسجد کا انجام بھی بابری مسجد جیسا ہوسکتا ہے۔
ماہرین قانون کی رائے
دہلی میں وائس آف امریکہ کے نمائندے سہیل انجم سے بات کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے ایک سینئر وکیل اے رحمان ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ "پلیسز آف ورشپ ایکٹ 1991" کے مطابق 1947 میں جو عبادت گاہ (بابری مسجد کو چھوڑ کر) جس حالت میں تھی وہ اسی حالت میں رہے گی۔ اس پر کوئی دعویٰ نہیں کیا جا سکتا اور اگر کہیں کوئی دعویٰ ہے تو وہ خود بخود کالعدم ہو جائے گا۔
ان کے بقول بنارس کی عدالت سے گیان واپی مسجد کے آرکیالوجیکل سروے کرانے کا حکم اس قانون کے خلاف ہے اور سپریم کورٹ نے بابری مسجد مقدمے میں جو فیصلہ سنایا تھا یہ اس کی بھی نفی ہے۔