ملائیشیا میں اپوزیشن کے دیرینہ رہنما انور ابراہیم نے وزیرِ اعظم کے عہدے کا حلف اٹھا لیا ہے۔جمعرات کو سیاسی اصلاحات کے حامیوں کو یہ فتح قوم پرستوں کے ساتھا سخت مقابلے کے بعد ملی اور انتخابات کے نتیجے میں ایسی پارلیمنٹ وجود میں نہیں آسکی تھی جس میں کسی ایک پارٹی کو فیصلہ کن اکثریت حاصل ہو۔
انور ابراہیم کی حلف برداری کی سادہ تقریب قومی محل میں منعقد ہوئی جسے قومی ٹیلی ویژن پر براہ راست دکھایا گیا۔
ملائیشیا کے شاہ سلطان عبداللہ سلطان احمد شاہ نے 75 سالہ انور کو ملک کا دسواں سربراہ نامزد کرنے سے پہلے کہا تھا انہیں اطمینان ہے کہ وہ ایک ایسے لیڈر ہیں جن کے اکثریت کی حمایت حاصل کرنے کا امکان ہے۔
بعد میں انور نے ایک ٹویٹ میں کہا،" میں انکساری اور ذمے داری کے ساتھ یہ فریضہ قبول کرتا ہوں۔"
انور کے "امید کے اتحاد" نے 82 نشستیں حاصل کیں جب کہ اکثریت حاصل کرنے کے لیے 112 کی ضرورت تھی۔ ملے قوم پرستوں کی حمایت میں غیر متوقع اضافے کی وجہ سے سابق وزیرِ اعظم محی الدین کی بائیں جانب جھکاؤ رکھنے والی پارٹی، نیشنل ایلائنس کو 73نشستیں ملیں جب کہ ان کی اتحادی، اسلامک پارٹی جو ملائیشیا بھر میں موجودگی رکھتی ہے، 49 سیٹوں کے ساتھ واحد بڑی جماعت بن کر ابھری۔
تعطل اس وقت ختم ہوا جب یونائیٹڈ ملے نیشنل آرگنائزیشن نے انور کی اتحاد کی حکومت کی حمایت پر رضامندی ظاہر کردی۔
75 سالہ محی الدین نے شکست تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے اور انور کو چیلنج کیا ہے کہ وہ پارلیمنٹ میں اپنی اکثریت ثابت کریں۔
انور ملائیشیا کے سابق نائب وزیرِ اعظم ہیں جنہیں 1990 میں ان کے عہدے سے ہٹا کر بد عنوانی اور اخلاقی گراوٹ کے الزامات کے تحت جیل میں ڈال دیا گیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ان الزامات کا محرک سیاسی تھا۔
ان کی گرفتاری پر ملائیشیا میں بڑے پیمانے پر مظاہرے ہوئے اور اصلاح کی تحریک ایک بڑی سیاسی قوت بن گئی۔
جمعرات کے روز ان کے اصلاح پسند بلاک کی دوسری فتح ہوئی ہے۔ اس سے پہلے 2018 کے انتخابات میں، ان کی تاریخی کامیابی، 1957 میں برطانیہ سے ملائیشیا کی آزادی کے بعد پہلا موقع تھا جب حکومت تبدیل ہوئی تھی۔
اس وقت انور جیل میں تھے۔ انہیں معاف کردیا گیا اور وہ مہاتیر محمد کے بعد اقتدار سنبھالنے ہی والے تھے کہ محی الدین نے منحرف ہو کر نئی حکومت کی تشکیل کے لیے 'یونائیٹڈ ملے نیشنل آرگنائزیشن' کے ساتھ الحاق کر لیا۔ جس کے لیڈر اسماعیل صابری یعقوب کو وزیرِ اعظم بنا دیا گیا مگر ان کی حکومت صرف 17 ماہ کے بعد ختم ہو گئی۔
ماہرین کے خیال میں انور ابراہیم ملک میں سیاسی تفریق کے وقت میں سب کو متحد کرنے والے لیڈر ثابت ہو سکتے ہیں۔
( اس خبر میں کچھ معلومات اے پی سے لی گئی ہیں)