آج پاکستان کی ملالہ یوسفزئی کی 24ویں سالگرہ ہے اور دنیا بھر میں ملالہ ڈے منایا گیا۔
سابق امریکی خاتون اول مشیل اوبامہ، اقوام متحدہ کے مختلف اداروں سمیت دنیا بھر سے تعلیم اور انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والی تنظیموں اور کارکنان نے ملالہ کو سالگرہ کی مبارکباد دینے کے ساتھ ساتھ اپنے تہنیتی پیغامات میں لڑکیوں کی تعلیم کی اہمیت اجاگر کی۔
سوشل میڈیا پر دئیے گئے پیغامات میں اقوام متحدہ نے ملالہ کی تقریر کا جملہ ’’ایک بچہ، ایک معلم، ایک کتاب اور ایک قلم دنیا تبدیل کر سکتے ہیں‘‘ نقل کرتے ہوئے، ملالہ کو ان کی سالگرہ پر مبارکباد دی ہے۔ عالمی ادارے نے لکھا ہے کہ ملالہ ہماری کم عمر ترین امن کی سفیر ہیں، جو دنیا بھر میں لڑکیوں کی تعلیم کے لیے کام کر رہی ہیں۔
مشیل اوبامہ نے ملالہ کو مبارکباد دیتے ہوئے کہاکہ جیسے ملالہ ہمیشہ کہتی ہے کہ دنیا بھر میں اس جیسی بہت سی لڑکیاں ہیں جنہیں تعلیم کا موقع ملنا چاہیے۔ تاکہ وہ ویسی عورت بن سکیں جیسا کہ وہ چاہتی ہیں۔
سپورٹس آئیکون بلی جین کنگ نے ملالہ کا قول ’’ہم تب تک کامیاب نہیں ہو سکتے جب تک نصف آبادی کو آگے بڑھنے کا موقع نہ ملے‘‘ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ سماجی انصاف کے لیے لڑنے والی ملالہ یوسفزئی کو سالگرہ مبارک۔ جین کنگ نے کہا کہ ملالہ نے اپنی زندگی کا مقصد معیاری تعلیم کا حصول بنا لیا ہے، خصوصاً لڑکیوں کی تعلیم کا، جو لڑکوں کے مقابلے میں 50 فیصد زیادہ خطرے میں ہوتی ہیں اس کوشش میں کہ وہ تعلیم سے محروم نہ رہ جائیں۔
آٹھ اکتوبر 2012ء کو طالبان کی گولیوں کا نشانہ بنے والی ملالہ آج دنیا بھر میں لڑکیوں کی تعلیم کی علامت اور علمبردار ہیں۔
وہ ترقی یافتہ ممالک میں تعلیم حاصل کرنے والی لڑکیاں ہوں یا غریب ممالک میں تعلیم سے محروم، تعلیم کی خواہاں بچیاں سب ہی اپنے خوابوں کی تعبیر ملالہ کی کامیابیوں میں تلاش کرتی ہیں۔
سوات کے ایک اسکول کے باہر ملالہ کو سر میں گولی مارنے والے اس اطمینان کے ساتھ پلٹ گئے کہ یہ باب اب ہمیشہ کے لئے ختم ہوگیا۔ مگر پندرہ سالہ نہتی لڑکی کا بندوق سے مقابلہ کرنے والوں کو کیا معلوم تھا کہ یہیں سے ایک نئی تاریخ رقم ہونے جا رہی ہے۔ جو قلم اور آواز اب تک ایک خبر دینے والی ویب سائٹ کی ڈائری اور دو ایک ٹی وی پروگرامز تک محدود تھی، ظلم کی اس بزدلانہ کارروائی کے بعد دنیا کے کونے کونے میں پہنچ جائے گی۔
یہ قدرت کا معجزہ ہی تھا کہ ملالہ بچ گئی اور آج اس کی کوششیں تعلیم سے محروم نا جانے کتنی بچیوں کو جینے کی امنگ دے رہی ہیں۔
آج ملالہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی جائیں، یا یورپین ایوان نمائندگان، کینیڈین پارلیمنٹ جائیں یا وائٹ ہاؤس، کون ہے جو ان کا کھڑے ہو کر استقبال نہیں کرتا۔
لیکن ایک ان کا اپنا ملک پاکستان ہے جہاں انہیں ہزاروں چاہتے ہیں تو لاکھوں ان سے ناراض نظر آتے ہیں۔ کوئی انہیں غدار کہتا ہے تو کوئی ڈرامہ، کسی کے لئے وہ مغربی ایجنٹ ہیں تو کوئی کہتا ہے کہ وہ پاکستان کے لئے بدنامی کا باعث بنی ہیں۔
کوئی ذی شعور انسان یہ سوال کرے کہ ملالہ کو قتل کرنے کی کوشش کرنا اور پھر اس کا معجزاتی طور پر بچ جانا۔۔ اس میں پاکستان کی بدنامی ہے یا طالبان کی؟ اگر ملالہ اس حملے میں ماری جاتیں تو پاکستان بدنام ہوتا یا پھر ان کے بچ جانے سے ہوا؟
ملالہ کے لئے پاکستانیوں کی ناپسندیدگی کیا غلط فہمیوں کا نتیجہ ہے یا اس میں واقعی وزن ہے؟ ملالہ ڈے کے حوالے سے وائس آف امریکہ سے ایک خصوصی گفتگو میں نامور ٹی وی اینکر ماریہ میمن نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ "ملالہ کا قصور یہ ہے کہ وہ بچ گئی، اگر وہ مرجاتی تو اس قوم کو ٹھنڈ پڑجانی تھی" مگر اس نے مظلوم بننے کے بجائے مسکرانے کو ترجیح دی، خوف کا مقابلہ نڈر بن کے کیا اور ہمارے معاشرے کو ایک ہنستی مسکراتی کامیاب عورت کبھی نہیں بھاتی۔
اسی گفتگو میں سینئر تجزیہ کار ہارون الرشید بھی شامل تھے۔ اس بات پر کہ بیشتر پاکستانیوں کو ملالہ کیوں پسند نہیں، ان کا کہنا تھا کہ ملالہ پر حملہ ایک ظلم کی کارروائی تھی مگر اب جو ملالہ کر رہی ہیں وہ خلق خدا کو ناراض کرنے کے مترادف ہے اور اس پر ردعمل تو آئے گا۔
ان کا اشارہ ملالہ کے برطانوی ووگ میگزین کو دئے گئے انٹرویو میں شادی سے متعلق بیان کی طرف تھا۔ اس گفتگو میں ہارون الرشید صاحب نے سوشل میڈیا پر لوگوں کی بے جا تنقید پر کہا کہ ہر معاشرہ اپنے ارتقائی مراحل سے گزرتا ہے اور ایسا ہی پاکستانی معاشرے کے ساتھ بھی ہورہا ہے۔
ان کی اس بات سے اتفاق کیا جائے تو یہ بھی سوچا جا سکتا ہے کہ اس ارتقا کا اطلاق انسانوں پر انفرادی طور پر بھی تو ہوتا ہے۔ انسان جوانی میں اکثر باغیانہ خیالات بھی رکھتا ہے جو وقت کے ساتھ ساتھ تبدیل ہوجاتے ہیں۔ تو پھر ملالہ کے خیالات پر اس ارتقائی تھیوری کا اطلاق کیوں نہیں کیا جاتا۔
اور یہ بات تو ہم نے ان سے پوچھ ہی لی کہ اگر خلق خدا کو للکارنے کی ہی بات ہے تو پھر لوگ سب کیساتھ ایک ہی جیسا رویہ کیوں نہیں رکھتے؟ کسی معروف سیاستدان کے ماضی کے قصے ان کا ذاتی معاملہ اور ملالہ کا ذاتی خیال بھی قوم کے جذبات مجروح کیوں کر دیتا ہے؟
ہارون الرشید صاحب کا کہنا تھا کہ ہمارا معاشرہ ایک پدرشاہی معاشرہ ہے یہاں مرد کو چھوٹ حاصل ہے اور عورت پر زیادہ نظر رکھی جاتی ہے۔
اسی بات میں اضافہ کرتے ہوئے ماریہ میمن نے کہا کہ پاکستانی عورتیں خاندان اور معاشرے کی عزت، غیرت، حیا اور مان کا بوجھ اٹھا اٹھا کر تھک چکی ہیں۔ ملالہ کی سوچ اور کہی ہوئی ہر بات کو مسئلہ نہیں بنانا چاہئے۔
کامیاب عورت خواہ وہ فاطمہ جناح ہوں یا عاصمہ جہانگیر، مقتدر طبقات اور بعض اوقات ہمارا معاشرہ بھی انہیں آسانی سے قبول نہیں کرتا۔
ہارون الرشید صاحب نے اپنی گفتگو میں کئی بار ملالہ کا ذکر کرتے ہوئے انہیں بیچاری اور مظلوم قرار دیا جس پر سوچ اس طرف بھی جاتی ہے کہ کیا عورت اور لڑکی اگر مظلوم اور مجبور ہوگی تو ہی ہمدردی کی حقدار ہوگی؟ اور اگر وہ ایسی بات کہے جس سے بعض لوگ اتفاق نہیں کرتے تو کیا یہ جائز ہے کہ اسے نفرت کا نشانہ بنایا جائے؟
ملالہ کو بار بار مظلوم پکارے جانے پر ان کے والد ضیاالدین یوسفزئی نے رد عمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ انسان اس وقت تک مظلوم ہوتا ہے جب تک وہ ظلم سہتا ہے؛ جب وہ ظلم کے خلاف اٹھ کھڑا ہو پھر وہ مظلوم نہیں رہتا اور ملالہ اپنی ہمت سے آج لڑکیوں کی تعلیم کی علامت بن چکی ہیں۔
ملالہ پر ایک عام تنقید یہ بھی کی جاتی ہے کہ پاکستان میں عوامی فلاح کے شعبوں میں کئی ایسے بڑے نام ہیں جو کئی دہائیوں سے عوام کی خدمت کرہے ہیں مگر نوبیل انعام دیتے وقت ایدھی جیسی شخصیات کو نظر انداز کیا گیا۔ دوسری جانب طالبان کے ظلم کا نشانہ بھی ایک تنہا ملالہ نہیں بنیں ہزاروں جانیں گئیں لیکن داستان صرف ملالہ کی ہی کیوں دہرائی جاتی ہے۔
اس کے جواب میں ماریہ میمن کا کہنا تھا کہ یہ ایک المیہ ہے۔ طالبان کے ظلم کا شکار ہونے والا ہر خاندان، ہر انسان اہم تھا۔ ہر ایک کی کہانی ہےجو یقیناً بیان ہونی چاہئیے۔ مگر اس میں ہماری بھی تو کچھ ذمہ داری ہے۔
مغرب میں اگر ان کی کہانی نہیں بیان ہوئی تو ہم نے خود کتنوں کی کہانیاں دنیا تک پہنچائی ہیں؟ انہوں نے مزید کہا کہ تاریخ کے ہر بڑے واقعے، جنگ اور سانحے میں شامل ہر انسان اپنی جگہ اہم ہوتا ہے مگر کچھ ہی شخصیات کو تاریخ کا حصہ بننا نصیب ہوتا ہے اور وہ شخصیات اس سانحے یا جدوجہد کی علامت بن جاتی ہیں۔
بقول ان کے، ''کیا طرابلس کی جنگ میں فاطمہ بنت عبدللہ واحد اہم کردار ہوگی؟ یقیناً اس جنگ میں بہت سے لوگوں کے کارنامے ہونگے مگر فاطمہ ایک علامت بن گئی جس پر نا صرف علامہ اقبال نے نظم لکھی بلکہ اسے آبروئے ملت بھی قرار دیا''۔
اسی تناظر میں ایک اور مثال ہولوکاسٹ کی بھی لی جاسکتی ہے۔ ہولوکاسٹ میں نازی افواج کے ہاتھوں بےدردی سے مارے جانے والوں کی تعداد ساٹھ لاکھ بتائی جاتی ہے اور کچھ اندازوں کے مطابق یہ تعداد اس سے بھی کہیں زیادہ ہے، مگر آج بھی جب نازی بربریت کا ذکر ہوتا ہے تو ذہن میں پہلا خیال پندرہ سالہ این فرینک اور ان کی ڈائری کا ہی آتا ہے۔
ماریہ کا کہنا تھا کہ انہیں بہت خوشی ہوتی ہے جب وہ ملک سے باہر سفر کرتی ہیں اور پہلے جو لوگ پاکستان کا نام سن کر طالبان کا نام لیتے تھے اب ملالہ کا ذکر کرتے ہیں۔
پاکستان کا ایک طبقہ اس بات پر بھی افسوس کرتا نظر آتا ہے کہ ملک سے آج تک دو ہی لوگوں کو نوبیل انعام ملا ہے اور معاشرے نے دونوں کو ہی اپنانے کے بجائے نفرت اور تنقید کا نشانہ بنایا۔
لوگ ملالہ کو پسند کریں نا کریں،ان کے لئے بے شک وہ اہم نا ہو، لیکن اس حقیقت سے کب تک منہ موڑیں گے کہ دنیا اسے ہیرو مانتی ہے۔
آج ملالہ فنڈ دنیا کے آٹھ ممالک میں تعلیم سے محروم رہ جانے والی 130 ملین لڑکیوں کی تعلیم کے لئے کام کر رہا ہے۔ ملالہ فنڈ نچلی سطح پر تعلیم کے لئے کام کرنے والے کارکنوں کی مدد کرتا ہے اور لڑکیوں کی تعلیم کی راہ میں حائل مشکلات کو دور کرنے کی کوششوں میں سرگرم عمل ہے۔
ملالہ کی چوبیسویں سالگرہ پر ملالہ کے والد ضیاالدین یوسفزئی نے ایک پیغام میں والدین سے گزارش کی ہے کہ وہ بیٹے اور بیٹی میں امتیاز نا کریں، تعلیم ہر بچے کا حق ہے اور اس سے معاشرے بہتر ہوتے ہیں۔
انہوں نے کہا ہے کہ " لوگ اکثر مجھ سے پوچھتے ہیں کہ میں نے ملالہ کے لئے کیا کیا؟ سوال یہ بنتا ہے کہ میں نے کیا نہیں کیا۔۔۔۔۔۔ میں نے اس کے پر نہیں کاٹے" ۔