واشنگٹن —
ملائیشیا کی ایک عدالت نے حزبِ اختلاف کے مرکزی رہنما اور ملک کے سابق نائب وزیرِاعظم انور ابراہیم کو اپنے ایک مرد ساتھی کے ساتھ جنسی تعلق کا مرتکب قرار دیتے ہوئے پانچ سال قید کی سزا سنائی ہے۔
انور ابراہیم پر الزام تھا کہ انہوں نے 2008ء میں اپنے ایک مشیر کے ساتھ جنسی تعلق قائم کیا تھا جس پر ملائشیا کے قانون کے تحت 20 سال تک قید کی سزا ہوسکتی ہے۔
ایک ذیلی عدالت نے 2012ء میں سابق نائب وزیرِاعظم کو 'اغلام بازی' کے اس الزام سے بری کرتے ہوئے قرار دیا تھا کہ ان کےخلاف بطورِ ثبوت پیش کی جانے والی 'ڈی این اے' رپورٹ میں رد و بدل کیا گیا تھا۔
انور ابراہیم کی بریت کے خلاف ملائیشیا کی حکومت نے اعلیٰ عدالت میں اپیل دائر کی تھی جس کی سماعت کا آغاز گزشتہ روز ہوا تھا۔
جمعے کو عدالت کے تینوں ججوں نے متفقہ طور پر ذیلی عدالت کےفیصلے کو کالعدم قرار دیا اور سابق نائب وزیرِاعظم کو 'اغلام بازی' کا مرتکب قرار دیتے ہوئے پانچ سال کے لیے جیل بھیجنے کا فیصلہ صادر سنایا۔
عدالت کی جانب سے اتنی تیزی سے اپیل کی سماعت اور فوری فیصلے پر انور ابراہیم کے حامیوں اور 'ہیومن رائٹس واچ' سمیت انسانی حقوق کی کئی عالمی تنظیموں نے احتجاج کیا ہے۔
انور ابراہیم کے حامی ان کےخلاف جاری قانونی کاروائی کو حکومت کی جانب سے سیاسی انتقام اور ان کا سیاسی کیریئر ختم کرنے کی سازش قرار دیتے ہیں۔
'ہیومن رائٹس واچ' کی جانب سے جاری کیے جانے والے ایک بیان میں عدالتی فیصلے کو "سیاسی" قرار دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ ملائیشیا کی حکومت ہر صورت سابق نائب وزیرِاعظم کو سیاست سے باہر رکھنا چاہتی ہے۔
خیال رہے کہ انور ابراہیم اس سے قبل بھی 'اغلام بازی' اور بدعنوانی کے الزامات میں چھ سال قید کی سزا کاٹ چکے ہیں جسےبعد ازاں ایک عدالت نے عدم ثبوت کی بنا پر معطل کردیا تھا۔
گوکہ عدالت کے حالیہ فیصلے کے خلاف ان کے وکلا حکمِ امتناعی حاصل کرنے میں کامیاب رہے ہیں جس کے باعث اس سزا پر فوری عمل درآمد نہیں ہوسکے گا، لیکن جمعے کو سامنے آنے والے فیصلے کے بعد انور ابراہیم آئندہ ماہ ریاست سیلنگور میں ہونے والے انتخابات میں حصہ لینے کے لیے نااہل ہوگئے ہیں۔
امکان ظاہر کیا جارہا تھا کہ انور ابراہیم سیلنگور کی مقامی اسمبلی کا انتخاب جیت کر بآسانی ملائشیا کی اس گنجان اور متمول ترین ریاست کے وزیرِاعلیٰ منتخب ہوجائیں گے اور یہ نئی حیثیت مرکزی سیاست میں ان کی واپسی کے لیے مددگار ثابت ہوگی۔
ریاستی انتخاب سے عین قبل عدالت کی جانب سے سابق نائب وزیرِ اعظم کی سزا کے خلاف اپیل کی دو روزہ سماعت اور فوری فیصلے نے ان الزامات کو تقویت دی ہے کہ اس مقدمے کا مقصد انور ابراہیم کی ملائشیا کی سیاست میں واپسی کو روکنا ہے۔
اگر وفاقی عدالت نے 66 سالہ انور ابراہیم کی جانب سے اپنی سزا کےخلاف دائر اپیل بھی مسترد کردی تو وہ 2018ء میں ہونے والے عام انتخابات کے لیے بھی نااہل ہوجائیں گے اور یہ ان کے سیاسی سفر کا اختتام ثابت ہوسکتا ہے۔
انور ابراہیم 1990ء کی دہائی میں ملائیشیا کی سیاست کی دوسری نمایاں اور مقبول ترین شخصیت تھے جنہیں اس وقت کے وزیرِاعظم مہاتیر محمد کا جانشین تصور کیاجاتا تھا۔
تاہم نصف صدی سے برسرِ اقتدار حکمران جماعت میں اقربا پروری اور بدعنوانی کے خلاف اور حکومتی نظام میں اصلاحات کے حق میں ملک گیر مہم چلانے کی پاداش میں 1998ء میں انور ابراہیم کو نائب وزیرِاعظم اور وزیرِ خزانہ کے عہدوں سے برطرف کردیا گیا تھا۔
ایک سال بعد انہیں ایک عدالت نے 'اغلام بازی' کے الزام میں قید کی سزا سنادی تھی جسے 2004ء میں ایک اعلیٰ عدالت کی جانب سے معطل کیے جانے کے بعد انور ابراہیم کی جیل سے رہائی عمل میں آئی تھی۔
رہائی کے بعد انور ابراہیم کی قیادت میں متحرک ہونے والی حزبِ اختلاف کی 2008ء کے عام انتخابات میں کامیابیوں کے باعث پہلی بار حکمران جماعت 'یو ایم این او' کو پارلیمان میں دو تہائی اکثریت حاصل نہیں ہوسکی تھی۔
گزشتہ سال مئی میں ہونے والے عام انتخابات میں حکمران جماعت کو پارلیمان میں اپنی مزید کئی نشستوں سے محروم ہونا پڑا تھا جس کے باعث وزیرِاعظم نجیب رزاق کی حکومت کو مشکلات کا سامنا ہے جب کہ ملک میں نسلی و سیاسی کشیدگی بھی عروج پر ہے۔
امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ انور ابراہیم کےخلاف عدالت کے حالیہ فیصلے سے اس کشیدگی میں مزید اضافہ ہوگا اور تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس سزا کے بعد حزبِ اختلاف کی احتجاجی تحریک میں بھی شدت آجائے گی۔
انور ابراہیم پر الزام تھا کہ انہوں نے 2008ء میں اپنے ایک مشیر کے ساتھ جنسی تعلق قائم کیا تھا جس پر ملائشیا کے قانون کے تحت 20 سال تک قید کی سزا ہوسکتی ہے۔
ایک ذیلی عدالت نے 2012ء میں سابق نائب وزیرِاعظم کو 'اغلام بازی' کے اس الزام سے بری کرتے ہوئے قرار دیا تھا کہ ان کےخلاف بطورِ ثبوت پیش کی جانے والی 'ڈی این اے' رپورٹ میں رد و بدل کیا گیا تھا۔
انور ابراہیم کی بریت کے خلاف ملائیشیا کی حکومت نے اعلیٰ عدالت میں اپیل دائر کی تھی جس کی سماعت کا آغاز گزشتہ روز ہوا تھا۔
جمعے کو عدالت کے تینوں ججوں نے متفقہ طور پر ذیلی عدالت کےفیصلے کو کالعدم قرار دیا اور سابق نائب وزیرِاعظم کو 'اغلام بازی' کا مرتکب قرار دیتے ہوئے پانچ سال کے لیے جیل بھیجنے کا فیصلہ صادر سنایا۔
عدالت کی جانب سے اتنی تیزی سے اپیل کی سماعت اور فوری فیصلے پر انور ابراہیم کے حامیوں اور 'ہیومن رائٹس واچ' سمیت انسانی حقوق کی کئی عالمی تنظیموں نے احتجاج کیا ہے۔
انور ابراہیم کے حامی ان کےخلاف جاری قانونی کاروائی کو حکومت کی جانب سے سیاسی انتقام اور ان کا سیاسی کیریئر ختم کرنے کی سازش قرار دیتے ہیں۔
'ہیومن رائٹس واچ' کی جانب سے جاری کیے جانے والے ایک بیان میں عدالتی فیصلے کو "سیاسی" قرار دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ ملائیشیا کی حکومت ہر صورت سابق نائب وزیرِاعظم کو سیاست سے باہر رکھنا چاہتی ہے۔
خیال رہے کہ انور ابراہیم اس سے قبل بھی 'اغلام بازی' اور بدعنوانی کے الزامات میں چھ سال قید کی سزا کاٹ چکے ہیں جسےبعد ازاں ایک عدالت نے عدم ثبوت کی بنا پر معطل کردیا تھا۔
گوکہ عدالت کے حالیہ فیصلے کے خلاف ان کے وکلا حکمِ امتناعی حاصل کرنے میں کامیاب رہے ہیں جس کے باعث اس سزا پر فوری عمل درآمد نہیں ہوسکے گا، لیکن جمعے کو سامنے آنے والے فیصلے کے بعد انور ابراہیم آئندہ ماہ ریاست سیلنگور میں ہونے والے انتخابات میں حصہ لینے کے لیے نااہل ہوگئے ہیں۔
امکان ظاہر کیا جارہا تھا کہ انور ابراہیم سیلنگور کی مقامی اسمبلی کا انتخاب جیت کر بآسانی ملائشیا کی اس گنجان اور متمول ترین ریاست کے وزیرِاعلیٰ منتخب ہوجائیں گے اور یہ نئی حیثیت مرکزی سیاست میں ان کی واپسی کے لیے مددگار ثابت ہوگی۔
ریاستی انتخاب سے عین قبل عدالت کی جانب سے سابق نائب وزیرِ اعظم کی سزا کے خلاف اپیل کی دو روزہ سماعت اور فوری فیصلے نے ان الزامات کو تقویت دی ہے کہ اس مقدمے کا مقصد انور ابراہیم کی ملائشیا کی سیاست میں واپسی کو روکنا ہے۔
اگر وفاقی عدالت نے 66 سالہ انور ابراہیم کی جانب سے اپنی سزا کےخلاف دائر اپیل بھی مسترد کردی تو وہ 2018ء میں ہونے والے عام انتخابات کے لیے بھی نااہل ہوجائیں گے اور یہ ان کے سیاسی سفر کا اختتام ثابت ہوسکتا ہے۔
انور ابراہیم 1990ء کی دہائی میں ملائیشیا کی سیاست کی دوسری نمایاں اور مقبول ترین شخصیت تھے جنہیں اس وقت کے وزیرِاعظم مہاتیر محمد کا جانشین تصور کیاجاتا تھا۔
تاہم نصف صدی سے برسرِ اقتدار حکمران جماعت میں اقربا پروری اور بدعنوانی کے خلاف اور حکومتی نظام میں اصلاحات کے حق میں ملک گیر مہم چلانے کی پاداش میں 1998ء میں انور ابراہیم کو نائب وزیرِاعظم اور وزیرِ خزانہ کے عہدوں سے برطرف کردیا گیا تھا۔
ایک سال بعد انہیں ایک عدالت نے 'اغلام بازی' کے الزام میں قید کی سزا سنادی تھی جسے 2004ء میں ایک اعلیٰ عدالت کی جانب سے معطل کیے جانے کے بعد انور ابراہیم کی جیل سے رہائی عمل میں آئی تھی۔
رہائی کے بعد انور ابراہیم کی قیادت میں متحرک ہونے والی حزبِ اختلاف کی 2008ء کے عام انتخابات میں کامیابیوں کے باعث پہلی بار حکمران جماعت 'یو ایم این او' کو پارلیمان میں دو تہائی اکثریت حاصل نہیں ہوسکی تھی۔
گزشتہ سال مئی میں ہونے والے عام انتخابات میں حکمران جماعت کو پارلیمان میں اپنی مزید کئی نشستوں سے محروم ہونا پڑا تھا جس کے باعث وزیرِاعظم نجیب رزاق کی حکومت کو مشکلات کا سامنا ہے جب کہ ملک میں نسلی و سیاسی کشیدگی بھی عروج پر ہے۔
امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ انور ابراہیم کےخلاف عدالت کے حالیہ فیصلے سے اس کشیدگی میں مزید اضافہ ہوگا اور تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس سزا کے بعد حزبِ اختلاف کی احتجاجی تحریک میں بھی شدت آجائے گی۔