اسلام آباد —
بلوچستان کے ایک سابق وزیر اعلیٰ نے پاکستان کی عدالت عظمٰی سے کہا ہے کہ صوبے کو درپیش گھمبیر مسائل کے حل کے لیے ایک بامقصد سیاسی عمل شروع کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ وہاں پر ریاست کی خفیہ ایجنسیوں کے حمایت یافتہ ’’ڈیتھ اسکواڈز‘‘ کو فوری طور پر ختم کیا جائے۔
بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اخترمینگل نے جمعرات کو اسلام آباد میں چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں تین رکنی بینچ کے روبرو پیش ہو کر اپنی سفارشات پر مبنی ایک دستاویز عدالت میں جمع کرائی۔
بلوچستان میں لاپتہ افراد اور ٹارگٹ کلنگ کے واقعات کو حل کرنے کے سلسلے میں سپریم کورٹ نے اُنھیں معاونت کے لیے طلب کر رکھا تھا جس پر خود ساختہ جلاوطنی ختم کر کے وہ رواں ہفتے پاکستان لوٹے تھے۔
مقدمے کی کارروائی کے بعد چیف جسٹس نے ایک حکم جاری کیا جس میں بلوچ رہنما کی بعض اہم سفارشات کے کچھ حصے بھی شامل ہیں۔
سردار اختر مینگل نے صوبے میں بلوچوں کے خلاف اعلانیہ اور پوشیدہ تمام فوجی آپریشنز فوری طور پر معطل کرنے کا مطالبہ دہراتے ہوئے کہا ہے کہ لاپتہ افراد کو عدالتوں کے سامنے پیش کیا جائے۔
بلوچستان کو درپیش مسائل کے حل کے لیے اپنی سفارشات میں اختر مینگل نے کہا کہ بلوچوں کے خلاف جاری خفیہ اور اعلانیہ فوجی کارروائیوں کو فوری طور پرمعطل کیا جائے۔
’’آئی ایس آئی اور ملٹری انٹیلی جنس کی زیر نگرانی کام کرنے والے ڈیتھ اسکواڈز کو ختم کیا جانا چاہیئے۔‘‘
اپنی دیگر سفارشات میں اُنھوں نے قوم پرست جماعتوں کو سیاسی سرگرمیاں دوبارہ شروع کرنے کی اجازت دینے کا مطالبہ کیا جس میں ریاست کے خفیہ ادارے مداخلت نہ کریں۔
’’بلوچوں کے ساتھ وحشیانہ سلوک اور انھیں قتل کر کے لاشوں کو سر راہ پھینکنے کے واقعات میں ملوث افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔‘‘
سردار مینگل نے اُن ہزاروں بے دخل بلوچوں کی بحالی کے لیے اقدامات کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے جو کسمپرسی کی حالت میں رہ رہے ہیں۔
’’قبل اس کے کہ تنازع کے تصفیے کے لیے کوئی بامعنی عمل شروع کیا جائے حکومت پاکستان کو (ان میں سے) بعض اقدامات کو نافذ کرنے کا عملی مظاہرہ کرنا ہوگا جو بلوچ مفاہمتی عمل کے لیے ایک سازگار ماحول فراہم کرنے کے لیے ناگزیر ہے۔‘‘
سردار اختر مینگل نے مقدمے کی سماعت کے بعد عدالت عظمٰی کے احاطے میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اُنھوں نے چیف جسٹس کے سامنے اپنے بیان میں واضح کیا کہ بلوچستان کا سیاسی مسئلہ سپریم کورٹ کے دائرہ اختیار میں نہیں البتہ اگر ان کی کوششوں سے حکمران اسے حل کرنے میں سنجیدگی کا مظاہرہ کریں تو وہ بھی اس میں معاونت کے لیے حاضر ہیں۔
’’لیکن اگر حکمرانوں نے یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ ہمیں بلوچستان کا خاتمہ کرنا ہے تو میں نے عدالت کو یہ تجویز بھی دی ہے کہ خونی طلاق سے بہتر ہے کہ ہم راضی خوشی طلاق کا فیصلہ کر لیں۔‘‘
بلوچ رہنما کا اشارہ آزاد بلوچستان کے مطالبات کی طرف تھا۔
سردار اختر مینگل نے وزیر داخلہ رحمٰن ملک کے ان الزامات کو بھی مسترد کیا کہ صوبے کے معاملات خراب کرنے میں بھارت یا کوئی دوسرا ملک ملوث ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ 70 کی دہائی میں فوجی آپریشن کے وقت بھی قوم پرستوں پر یہی الزامات لگائے گئے تھے۔
’’اگر اس میں ہندوستان کا ہاتھ ہے اور بقول اُن (رحمٰن ملک) کے وہ آپ کے ملک کو توڑنا چاہتا ہے مگر پھر بھی آپ اُن کے ساتھ تجارتی معاہدے کر رہے ہیں، ہندوستان کو تجارت کے لیے ایم ایف این (انتہائی مراعات یافتہ ملک) کا درجہ بھی آپ نے دیا ہے۔‘‘
بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اخترمینگل نے جمعرات کو اسلام آباد میں چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں تین رکنی بینچ کے روبرو پیش ہو کر اپنی سفارشات پر مبنی ایک دستاویز عدالت میں جمع کرائی۔
بلوچستان میں لاپتہ افراد اور ٹارگٹ کلنگ کے واقعات کو حل کرنے کے سلسلے میں سپریم کورٹ نے اُنھیں معاونت کے لیے طلب کر رکھا تھا جس پر خود ساختہ جلاوطنی ختم کر کے وہ رواں ہفتے پاکستان لوٹے تھے۔
مقدمے کی کارروائی کے بعد چیف جسٹس نے ایک حکم جاری کیا جس میں بلوچ رہنما کی بعض اہم سفارشات کے کچھ حصے بھی شامل ہیں۔
سردار اختر مینگل نے صوبے میں بلوچوں کے خلاف اعلانیہ اور پوشیدہ تمام فوجی آپریشنز فوری طور پر معطل کرنے کا مطالبہ دہراتے ہوئے کہا ہے کہ لاپتہ افراد کو عدالتوں کے سامنے پیش کیا جائے۔
بلوچستان کو درپیش مسائل کے حل کے لیے اپنی سفارشات میں اختر مینگل نے کہا کہ بلوچوں کے خلاف جاری خفیہ اور اعلانیہ فوجی کارروائیوں کو فوری طور پرمعطل کیا جائے۔
’’آئی ایس آئی اور ملٹری انٹیلی جنس کی زیر نگرانی کام کرنے والے ڈیتھ اسکواڈز کو ختم کیا جانا چاہیئے۔‘‘
اپنی دیگر سفارشات میں اُنھوں نے قوم پرست جماعتوں کو سیاسی سرگرمیاں دوبارہ شروع کرنے کی اجازت دینے کا مطالبہ کیا جس میں ریاست کے خفیہ ادارے مداخلت نہ کریں۔
’’بلوچوں کے ساتھ وحشیانہ سلوک اور انھیں قتل کر کے لاشوں کو سر راہ پھینکنے کے واقعات میں ملوث افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔‘‘
سردار مینگل نے اُن ہزاروں بے دخل بلوچوں کی بحالی کے لیے اقدامات کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے جو کسمپرسی کی حالت میں رہ رہے ہیں۔
’’قبل اس کے کہ تنازع کے تصفیے کے لیے کوئی بامعنی عمل شروع کیا جائے حکومت پاکستان کو (ان میں سے) بعض اقدامات کو نافذ کرنے کا عملی مظاہرہ کرنا ہوگا جو بلوچ مفاہمتی عمل کے لیے ایک سازگار ماحول فراہم کرنے کے لیے ناگزیر ہے۔‘‘
سردار اختر مینگل نے مقدمے کی سماعت کے بعد عدالت عظمٰی کے احاطے میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اُنھوں نے چیف جسٹس کے سامنے اپنے بیان میں واضح کیا کہ بلوچستان کا سیاسی مسئلہ سپریم کورٹ کے دائرہ اختیار میں نہیں البتہ اگر ان کی کوششوں سے حکمران اسے حل کرنے میں سنجیدگی کا مظاہرہ کریں تو وہ بھی اس میں معاونت کے لیے حاضر ہیں۔
’’لیکن اگر حکمرانوں نے یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ ہمیں بلوچستان کا خاتمہ کرنا ہے تو میں نے عدالت کو یہ تجویز بھی دی ہے کہ خونی طلاق سے بہتر ہے کہ ہم راضی خوشی طلاق کا فیصلہ کر لیں۔‘‘
بلوچ رہنما کا اشارہ آزاد بلوچستان کے مطالبات کی طرف تھا۔
سردار اختر مینگل نے وزیر داخلہ رحمٰن ملک کے ان الزامات کو بھی مسترد کیا کہ صوبے کے معاملات خراب کرنے میں بھارت یا کوئی دوسرا ملک ملوث ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ 70 کی دہائی میں فوجی آپریشن کے وقت بھی قوم پرستوں پر یہی الزامات لگائے گئے تھے۔
’’اگر اس میں ہندوستان کا ہاتھ ہے اور بقول اُن (رحمٰن ملک) کے وہ آپ کے ملک کو توڑنا چاہتا ہے مگر پھر بھی آپ اُن کے ساتھ تجارتی معاہدے کر رہے ہیں، ہندوستان کو تجارت کے لیے ایم ایف این (انتہائی مراعات یافتہ ملک) کا درجہ بھی آپ نے دیا ہے۔‘‘