رسائی کے لنکس

خاتون اسسٹنٹ کمشنر کو ہراساں کرنے کا واقعہ؛ ’اعلیٰ عہدوں پر موجود خواتین کو دباؤ میں رکھا جاتا ہے‘


فائل فوٹو
فائل فوٹو

خیبر پختونخوا کے ضلع مانسہرہ میں اسسٹنٹ کمشنر ماروی ملک شیر کو ہراساں کرنے کے الزام میں گرفتار کیے گئے تین ملزمان کو جیل بھیج دیا گیا ہے۔

اس واقعے کے بعد سماجی حلقوں میں نئی بحث چھڑ گئی ہے کہ اگر اسسٹنٹ کمشنر سطح کی کوئی خاتون ہراساں ہونے سے محفوظ نہیں ہے تو عام خواتین کا کیا حال ہو گا؟

اسسٹنٹ کمشنر ماروی ملک شیر کو ہراساں کرنے کا واقعہ جمعے کو اس وقت پیش آیا تھا جب کچھ نوجوانوں نے پہلے ان کی گاڑی کا راستہ روکا اور پھر ان سے بدتمیزی کی۔ اس دوران ماروی ملک شیر اور ان کے محافظ زخمی بھی ہوئے۔

خیبر پختونخوا کی محتسب برائے انسدادِ ہراسانی رخشندہ ناز کا کہنا ہے کہ جس علاقے میں یہ واقعہ پیش آیا ہے بدقسمتی سے وہاں خواتین اور خاص طور پر ایسی خواتین کے بارے میں جو کہ فیلڈ میں کام کرتی ہوں، سوچ کچھ زیادہ اچھی نہیں ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے رخشندہ ناز نے بتایا کہ خواتین چاہتی ہیں کو وہ بھی آگے بڑھ کر مردوں کی طرح فیلڈ میں جائیں، نہ کہ اپنے آپ کو صرف دفتر تک محدود رکھیں۔ بدقسمتی سے ایسی ترقی پسند سوچ رکھنے والی خواتین کے خلاف اس پدر شاہی معاشرے میں کافی حد تک مزاحمت ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ان کے پاس اگرچہ ایسے واقعات کے خلاف از خود نوٹس لینے کا اختیار نہیں ہے تاہم وہ پھر بھی صوبائی سیکریٹری داخلہ اور دیگر اداروں کے ساتھ براہِ راست رابطے میں ہیں تاکہ ملزمان کو کیفر کردار تک پہنچایا جا سکے اور اس سوچ کی حوصلہ شکنی ہو۔

ماروی ملک شیر کی بہن سسی ملک شیر ضلع اٹک میں بطور کنٹونمنٹ چیف ایگزیکٹو آفیسر تعینات ہیں۔ انہوں نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ان کی بہن ماروی ملک شیر ٹھیک ہیں۔ ضلع مانسہرہ کے ڈی پی او اور ڈی سی نے بروقت کارروائی کرتے ہوئے بغیر کسی تاخیر کے تمام ملزمان کو گرفتار کیا ورنہ شاید حالات اتنے خوشگوار نہ ہوتے۔

سسی ملک شیر کا کہنا تھا کہ اس واقعے کے بعد جو سب سے پہلا خیال ان کے دل میں آیا کہ محافظ، ڈرائیور اور سرکاری گاڑی کے باوجود اگر کوئی سرکاری افسر ہراساں ہونے سے نہیں بچ سکتا تو پھر کوئی عام سی لڑکی جو اسکول، کالج یا پھر کسی گھریلو کام سے گھر سے نکلے گی اس کے ساتھ تو بہت برا ہو سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ان کے والد واپڈا میں ملازمت کرتے تھے اور ان کا تعلق خیبر پختونخوا کے ضلع ہری پور سے ہے۔ جب کہ ان کی ساری بہنیں سی ایس ایس افسر ہیں۔

ماروی ملک شیر کے علاوہ ان کی دیگر چار بہنوں نے بھی سی ایس ایس کیا ہے جو کہ پاکستان کی تاریخ میں ایک ہی گھر سے پانچ بہنوں کا ایک ریکارڈ ہے اور یہ پانچوں بہنیں سرکاری عہدوں پر فائز ہیں۔

بڑی بہن لیلیٰ ملک شیر اس وقت انکم ٹیکس ڈپارٹمنٹ کراچی میں بطور ڈپٹی کمشنر کام کر رہی ہیں۔ دوسرے نمبر پر شیریں ملک شیر نیشنل ہائی وے اتھارٹی (این ایچ اے) میں ڈپٹی ڈائریکٹر ہیں۔ تیسرے نمبر پر ڈاکٹر سسی ملک شیر ہیں جو کہ ملٹری لینڈ اینڈ کنٹونمنٹ گروپ میں ہیں اور اس وقت کنٹونمنٹ ایگزیکٹو آفیسر اٹک تعینات ہیں۔ چوتھے نمبر پر ماروی ملک شیر ہیں جو کہ اسسٹنٹ کمشنر مانسہرہ ہیں اور سب سے آخری نمبر پر زوہا ملک شیر ہیں وہ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن میں سیکشن افسر تعینات ہیں۔

مانسہرہ میں تھانہ سٹی کے ایس ایچ او اسرار شاہ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ تینوں ملزمان کو گرفتار کر کے جیل بھیج دیا گیا ہے۔ ملزمان کے قبضے سے شراب کی بوتلیں، پستول، رپیٹر گن اور کارتوس برآمد ہوئے ہیں۔

واقعے کی تفصیلات بتاتے ہوئے تھانہ سٹی کے تفتیشی افسر عبدالحمید کا کہنا تھا کہ یہ واقعہ جمعے کی دوپہر چنٹی غازی کوٹ کے قریب اس وقت پیش آیا جب تین نوجوان اپنی گاڑی میں سوار تھے اور پیچھے سے آنے والی اسسٹنٹ کمشنر ماروی ملک شیر کی گاڑی کو راستہ نہیں دے رہے تھے۔ ان کے بقول یہ نوجوان بظاہر علاقے میں بلدیاتی انتخابات کی مہم میں مصروف تھے۔

تفتیشی افسر نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ماروی ملک شیر نے ان افراد کو اپنا تعارف بھی کرایا البتہ معاملہ نہیں سنبھل سکا اور ان نوجوانوں نے سرکاری اہلکاروں کو ہراساں کرنا شروع کر دیا اور کہنا شروع کر دیا کہ وہ کسی اسسٹنٹ کمشنر کو مانتے ہیں نہ ڈپٹی کمشنر کو مانتے ہیں اور نہ ہی کسی خاتون کو اپنا افسر مانتے ہیں۔

بعد ازاں معاملہ ہاتھا پائی تک جا پہنچا جس میں ماروی ملک شیر سمیت دیگر محافظ زخمی ہوئے اور پولیس نے علاقے کے دیگر افراد کے تعاون سے ان نوجوانوں کوحراست میں لیا۔

صوبائی محتسب برائے انسدادِ ہراسانی رخشندہ ناز کا کہنا ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ صوبے کی خواتین کے خلاف دو طرح کے جرائم میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ ایک جنسی طور پر ہراساں کرنا اور دوسرا سائبر ہراسمنٹ ہے۔

انہوں نے واضح کیا کہ عوامی سطح پر خواتین کو ہراساں کیے جانے کا معاملہ اعلیٰ عہدوں پر کام کرنے والی خواتین سے مختلف ہے۔ اعلیٰ عہدوں پر کام کرنے والی خواتین کو ہمیشہ دباؤ میں رکھا جاتا ہے تاکہ وہ کارکردگی کا مظاہرہ نہ کر سکیں اور وہ اپنے آپ کو دفتر کی چار دیواری تک ہی محدود رکھیں۔ ان کے بقول یہ پدر شاہی معاشرہ خواتین کے فیصلہ سازی کی سوچ کے خلاف ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ جب سے اسمارٹ فون آئے ہیں تب سے انٹرنیٹ کے ذریعے سوشل میڈیا پر خواتین کے خلاف فیک آئی ڈیز اور ٹرولنگ کا ایک نیا سلسلہ شروع ہو گیا ہے اور اگر اداروں کی جانب سے صحیح تعداد شیئر ہو جائے تو یہ تعداد بہت زیادہ ہے۔

صوبائی محتسب نے کہا کہ بعض اوقات خواتین جلد دباؤ میں آ جاتی ہیں اور پھر وہ ہرسانی کے کیسز واپس لے لیتی ہیں کیوں کہ انہیں معاشرے میں بد نامی کا خوف ہوتا ہے حالاں کہ معاشرے پر داغ تو وہ لوگ ہونے چاہیئں جو ایسی حرکتوں میں ملوث ہوتے ہیں۔

واپس لیے جانے والے کیسز کی تعداد کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ حال ہی میں کم از کم 35 ایسی خواتین نے اپنے مقدمات واپس لیے ہیں۔

مہوش محب کاکا خیل پشاور ہائی کورٹ میں انسانی حقوق سے متعلق کیسز کی پیروی کرتی ہیں۔ ایم ایس کمپوٹر سائنس کے ساتھ سائبر کرئمز میں ایل ایل ایم کی بھی ڈگری رکھتی ہیں۔ خواتین پر معاشرے اور خاندان کے دباؤ کے حوالے سے وہ رخشندہ ناز سے اتفاق کرتی ہیں۔ وائس آف امریکہ سے گفتگو میں مہوش محب نے بتایا کہ ہراساں ہونے والی بہت سی خواتین پہلے مقدمات درج کراتی ہیں۔ اس کے بعد وہ تمام چیزیں میڈیا پر آنا شروع ہو جاتی ہیں جس کے بعد ان پر معاشرے اور اہلِ خانہ کا دباؤ آ جاتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اسی دباؤ کی وجہ سے مجبوراََ انہیں اپنے مقدمات واپس لینا پڑتے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ ان کے پاس ایسے بھی کیسز آئے ہیں کہ متاثرہ خواتین کے وکیل بھی انہیں ہراساں کرتے ہیں کیوں کہ وہ اس متاثرہ خاتون کے کیس اور اس کی کمزوریوں سے بخوبی واقف ہوتے ہیں اور وکیل جانتے ہیں کہ کیس کو لڑنے کے لیے خاتون کو اس کے اہلِ خانہ کی حمایت حاصل ہے یا نہیں اور وہ پھر مجبور ہو کر اپنا کیس واپس لے لیتی ہیں۔

XS
SM
MD
LG