بلوچستان کے ضلع چمن کے حکام نے پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کے سربراہ منظور پشتین کو حراست میں لے کر صوبہ بدر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
ڈپٹی کمشنر چمن کیپٹن (ر) راجہ اظہر عباس نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں تصدیق کی ہے کہ منظور پشتین کو چمن سے حراست میں لے کر کوئٹہ منتقل کیا جا رہا ہے جس کے بعد اُنہیں صوبہ بدر کر دیا جائے گا۔
یہ بھی اطلاعات ہیں کہ اُنہیں بلوچستان میں 'غیر قانونی' طور پر داخل ہونے پر صوبہ بدر کیا جا رہا ہے۔
منظور پشتین کو حراست میں لیے جانے کا معاملہ پیر کو اس وقت سامنے آیا ہے جب وہ چمن سرحد پر نئی سفری پابندیوں کے خلاف کئی روز سے جاری تاجروں کے احتجاجی مظاہرے میں شرکت کے بعد تربت میں لاپتا افراد کے دھرنے میں شرکت کے لیے روانہ ہو رہے تھے۔
خیال رہے کہ چند روز قبل تربت میں انسدادِ دہشت گردی پولیس (سی ٹی ڈی) کے ساتھ مبینہ مقابلے میں چار افراد کی ہلاکت پر لواحقین سراپا احتجاج ہیں۔ اُن کا دعویٰ ہے کہ مارے جانے والے افراد کو جبری طور پر لاپتا کیا گیا تھا۔
سی ٹی ڈی کا مؤقف تھا کہ بالاچ علیحدگی پسند بلوچ تنظیم، بلوچستان ری پبلکن آرمی (بی آر اے) کا رُکن تھا اور پولیس مقابلے کے دوران اس کی ہلاکت ہوئی۔
مبینہ مقابلے میں ہلاک ہونے والے بالاچ کے لواحقین کئی روز سے لاش سمیت دھرنا دیے ہوئے ہیں۔
قافلے پر فائرنگ کے الزامات
پی ٹی ایم رہنماؤں نے یہ الزام بھی عائد کیا کہ حراست میں لیے جانے سے قبل منظور پشتین کی گاڑی پر فائرنگ بھی کی گئی تھی، تاہم حکام نے اس کی تردید کی ہے۔
پی ٹی ایم بلوچستان کے رہنما زبیر شاہ نے دعویٰ کیا کہ منظور پشتین کے قافلے پر چمن کی مال روڈ پر پولیس اور دیگر سیکورٹی فورسز کے اہلکاروں نے مبینہ طور پر فائرنگ کی جس سے نو گاڑیوں کو نقصان پہنچا۔
زبیر شاہ کے مطابق واقعے میں پی ٹی ایم کے سربراہ منظور پشتین اور دیگر عہدے دار محفوظ رہے۔
زبیر شاہ نے دعویٰ کیا کہ منظور پشتین پر مبینہ فائرنگ سے خاتون اور دو بچوں سمیت چار افراد زخمی ہوئے ہیں تاہم ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر اسپتال چمن کے ذرائع نے زخمیوں کے حوالے سے کوئی تصدیق نہیں کی۔
بلوچستان کے نگراں وزیرِ اطلاعات جان اچکزئی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے پی ٹی ایم رہنما کے دعوؤں کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ فائرنگ منظور پشتین کے گارڈز کی جانب سے کی گئی۔
یاد رہے کہ اس سے قبل بھی بلوچستان حکومت کی جانب سے منظور پشتین کو متعدد بار بلوچستان آمد سے روکنے کے لیے ان پر صوبے میں داخلے پر پابندی عائد کی جا چکی ہے۔
منظور پشتین گزشتہ دنوں چمن میں تاجروں کی جانب سے احتجاجی دھرنے میں اظہارِ یکجہتی کے لیے چمن پہنچے تھے۔
اتوار کو پی ٹی ایم کے سربراہ منظور پشتین نے ایک ویڈیو پیغام میں بلوچستان میں مبینہ جبری گمشدگیوں کی مذمت کی تھی۔
اُن کا کہنا تھا کہ ایک جانب چمن میں 45 روز سے دھرنا جاری ہے جب کہ دوسری جانب تربت میں لوگ انصاف مانگ رہے ہیں۔
منظور پشتین کے قافلے پر چمن میں مبینہ فائرنگ کے خلاف کوئٹہ بار ایسوسی ایشن نے منگل کو تمام عدالتوں سے مکمل بائیکاٹ کا اعلان کیا ہے۔
فورم