امریکہ کے وزیرِ دفاع مارک ایسر نے پاکستان کی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ سے جمعرات کو فون پر ہونے والے رابطے کے دوران دونوں ملکوں کے طویل المدت تعلقات اور باہمی سلامتی کی شراکت داری کے عزم کا اعادہ کیا ہے۔
امریکہ کے محکمہؑ خارجہ کے ترجمان جوناتھن ہاف مین کی طرف سے جاری ایک بیان کے مطابق امریکی وزیرِ دفاع نے پاکستانی فوج کے سربراہ سے گفتگو کرتے ہوئے افغان امن مصالحت کے عمل کے لیے پاکستان کی حمایت کو سراہا ہے۔
بیان کے مطابق مارک ایسپر نے مستقبل میں اس تعاون کو جاری رکھنے کا خیر مقدم بھی کیا ہے۔
یاد رہے کہ امریکہ اور طالبان کے درمیان گزشتہ ماہ کے اواخر میں قطر کے دارالحکومت دوحہ میں امن معاہدے پر دستخط ہونے کے بعد امریکی وزیرِ دفاع کا جنرل باجوہ سے یہ پہلا رابطہ ہے۔
مارک ایسپر نے ایک ایسے وقت پاکستانی فوج کے سربراہ سے بات کی ہے جب افغان امن معاہدے پر طے شدہ منصوبے کے تحت ابھی پیش رفت ہونا باقی ہے۔
امن معاہدے کے تحت قیدیوں کے تبادلے کے بعد بین الافغان مذاکرات کا آغاز ہونا تھا تاہم یہ عمل اب تک شروع نہیں ہو سکا ہے۔
ادھر افغان صدارتی انتخاب سے متعلق صدر اشرف غنی اور ان کے سیاسی حریف عبداللہ عبداللہ کے درمیان پیدا ہونے والے سیاسی تنازع کی وجہ سے بین الافغان مذاکرات کے لیے مشترکہ وفد کی بھی تشکیل تاخیر کا شکار ہے۔
اگرچہ امریکہ کے نمائندہؑ خصوصی برائے افغان مفاہمت زلمے خلیل زاد بھی قیدیوں کی رہائی کے عمل کو جلد شروع کرنے اور کابل میں پیدا ہونے والے سیاسی تنازع کے جلد حل پر زور دے رہے ہیں لیکن اب تک اس بارے میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔
اس تناظر میں تجزیہ کار امریکہ کے وزیر دفاع مارک ایسر اور پاکستانی فوج کے سربراہ کے درمیان رابطے کو اہم قرار دے رہے ہیں۔
یاد رہے کہ پاکستان نے امریکہ اور طالبان کے درمیان معاہدے سے قبل طالبان کو مذکرات کی میز پر لانے کے لیے اہم کردار ادا کیا تھا اور تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ افغانستان میں امن و مصالحت اور پائیدار امن کے لیے پاکستان کا کردار اب بھی اہم ہے۔