پاکستان میں کرونا وائرس کے دو کیسز رپورٹ ہونے کے بعد ملک میں ماسک کی قلت پیدا ہوگئی ہے جب کہ حکومت نے بھی تصدیق کی ہے کہ ماسک کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے اس کی برآمد پر پابندی عائد کر دی ہے۔
پاکستان نے بدھ کی شب باضابطہ طور پر تصدیق کی کہ ایران سے آنے والے دو شہریوں میں کرونا وائرس پایا گیا ہے جب کہ اس سے قبل ایران سے متصل بلوچستان کے اضلاع میں ہنگامی اقدامات کیے گئے تھے۔
چین کے شہر ووہان سے پھیلنے والا کرونا وائرس دنیا کے مختلف ملکوں تک پہنچ چکا ہے اور مجموعی طور پر دنیا بھر میں اس وائرس سے لگ بھگ تین ہزار افراد ہلاک اور ایک لاکھ سے زائد متاثر ہیں۔
عالمی سطح پر کرونا وائرس کے علاج کے لیے کوئی دوائی تو موجود نہیں البتہ اس وائرس سے بچاؤ کے لیے چہرے، ہاتھ، پاؤں اور جسم کو ڈھانپنے کے علاوہ ہاتھوں کو مسلسل دھونا اور متاثرہ مریضوں کو قرنطینہ میں رکھنے جیسے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔
کرونا وائرس کے تیزی سے پھیلاؤ کی وجہ سے عالمی سطح پر ماسک کی طلب میں اضافہ ہو گیا ہے جب کہ پاکستان میں اس وائرس کی تصدیق کے بعد مارکیٹ میں ماسک نایاب ہو گئے ہیں جس کی تصدیق پاکستان کے قومی ادارہ برائے صحت کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر میجر جنرل عامر اکرام نے بھی کی ہے۔
اسلام آباد کے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ حمزہ شفقات نے بھی شہر بھر میں دفعہ 144 کے تحت ماسک کی ذخیرہ اندوزی پر پابندی عائد کر دی ہے۔
اس حوالے سے جاری ہونے والے ایک نوٹی فکیشن کے مطابق شہر میں سیفٹی ماسک کی ذخیرہ اندوزی پر پابندی ہو گی۔
نوٹی فکیشن کے مطابق ماسک کی ذخیرہ اندوزی پر پابندی دو ماہ کے لیے ہو گی جس کے دوران ماسک مہنگے داموں فروخت کر کے منافع کمانے پر بھی پابندی ہو گی۔
یاد رہے کہ عام طور پر بازار میں ماسک کا ڈبہ 300 روپے میں فروخت ہوتا ہے تاہم حالیہ چند روز کے دوران ماسک نایاب ہو گئے ہیں اور جہاں دستیاب ہیں وہاں مہنگے داموں مل رہے ہیں۔
اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے میجر جنرل عامر اکرام نے کہا کہ عالمی سطح پر ماسک کی طلب کو دیکھتے ہوئے پاکستان سے بڑی تعداد میں مہنگے داموں یہ برآمد کیے جا رہے تھے جب کہ کئی دکانداروں نے ذخیرہ اندوزی کے بعد اسے برآمد کیا ہے۔
عامر اکرام نے کہا کہ وہ کسی پر الزام عائد کرنا نہیں چاہتے تاہم یہ معاملہ حکومت کے علم میں ہے اس لیے ماسک سمیت دیگر حفاظتی مصنوعات کی برآمد پر پابندی عائد کی ہے۔ ان کے بقول، قومی سطح پر ماسک کی جتنی ضرورت ہے وہ خرید لیے جائیں گے، صوبوں کی سطح پر بھی ضروری ہے کہ وہ اپنا ذخیرہ رکھیں۔
پاکستان میں کرونا وائرس سے متاثر ہونے والے دو مریضوں میں سے ایک اسلام آباد کے پمز اسپتال میں زیرِ علاج ہے۔
ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن اسلام آباد کے صدر فضل ربی کا کہنا ہے کہ انہوں نے چار روز قبل پمز اسپتال کی انتظامیہ سے درخواست کی تھی کہ آئی سی یو اور ایمرجنسی میں کرونا وائرس سے بچاؤ کے ماسک اور دیگر اشیا فراہم کریں لیکن بدقسمتی سے اب تک ماسک فراہم نہیں کیے گئے۔
اُن کے بقول، ڈاکٹرز اور نرسوں میں خوف پایا جاتا ہے کہ بغیر تیاری کے کرونا وائرس کے مریضوں کو کس طرح دیکھیں گے۔
اُن کے بقول وہ یہ نہیں کہتے کہ ڈاکٹرز کرونا وائرس کا علاج نہیں کریں گے، وہ رضاکارانہ طور پر تفتان جانے کے لیے بھی تیار ہیں لیکن حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ڈاکٹروں کو ضروری اشیا فراہم کریں۔