رسائی کے لنکس

نو مئی سے متعلق اشتہارات کی بھرمار؛ کیا معاشی مشکلات سے دوچار پاکستان اس کا متحمل ہو سکتا ہے؟


پاکستان میں نو مئی کے واقعات کی ویڈیوز اور مشتعل مظاہرین کو مبینہ طور پر اُکسانے والے پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنماؤں کی ویڈیوز پر مبنی اشتہارات ان دنوں پاکستان کے میڈیا پر بار بار نشر کیے جا رہے ہیں۔ بعض ماہرین ملک کو درپیش معاشی مشکلات کے تناظر میں اس مہم کو غیر ضروری قرار دے رہے ہیں تو وہیں بعض مبصرین شرپسندوں کی نشان دہی کے لیے اسے اہم سمجھتے ہیں۔

حالیہ دنوں میں ہونے والی اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) کے اجلاس میں وزارت اطلاعات و نشریات کے لیے 55 کروڑ روپے کے اضافی فنڈز جاری کردیے گئے ہیں۔ ای سی سی کے مطابق سال 2023-2022 کے دوران چلنے والی مختلف کمپینز کے لیے یہ فنڈز جاری کیے گئے ہیں۔

حکومتی ذرائع کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ بیشتر اشتہارات ایف او سی یعنی مفت چلائے جارہے ہیں اور ان کے بدلے حکومت کو کوئی ادائیگی نہیں کرنی۔

بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ مشکل اقتصادی صورتِ حال کے باعث اخبارات اور ٹی وی چینلز کے لیے ممکن نہیں کہ وہ مفت میں اس طرح کی مہم چلائیں۔


اس بارے میں مختلف میڈیا کےاداروں سے منسلک افراد نے اس معاملے پر آن دی ریکارڈ بات کرنے سے انکار کردیا۔ تاہم بیشتر اداروں کا کہنا تھا کہ اس مہم کے آغاز میں کچھ ویڈیوز ملکی سلامتی سے متعلق تھیں جنہیں مفت میں چلایا گیا تاہم بعد میں باقاعدہ ادائیگی کی جا رہی ہے۔

پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان معاہدہ نہ ہونے کی وجہ سے اب تک ملک مشکل صورتِ حال سے دوچار ہے ۔ایسے میں ملک ڈالرز کی کمی کا بھی شکار ہے اور سرکاری ادائیگیوں کے لیے بھی رقوم جاری نہیں ہو رہیں۔

ناقدین کہتے ہیں کہ ایسے میں سیاسی مخالفین کے خلاف مہم چلائی جارہی ہے۔ اردو اور انگلش اخبارات میں روزانہ فرنٹ یا بیک پیج پر آدھے صفحہ کے اشتہارات گزشتہ ایک ہفتے سے روزانہ کی بنیادوں پر چھاپے جارہے ہیں۔

'ستر سے 80 فی صد اشتہارات مفت چلائے جا رہے ہیں'

وزارت اطلاعات و نشریات کے ایک افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر دعویٰ کیا کہ اس مہم کے دوران 70 سے 80 فی صد تک مفت اشہتارات چلائے جارہے ہیں اور حکومتی خزانے پر کوئی بوجھ نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے مختلف میڈیا کے اداروں سے درخواست کی تھی جس کے جواب میں کئی اداروں نے یہ اشتہارات مفت چلانے کی حامی بھری ہے، تاہم بعض اخبارات کو کم نرخوں پر ادائیگی کی جا رہی ہے۔

ڈان اخبار سے منسلک سینئر صحافی خلیق کیانی کہتے ہیں کہ حکومت کو اس وقت دہرے معاشی چیلنج کا سامنا ہے۔ ایک جانب سیاسی چیلنج ہے جب کہ دوسری جانب عوام کو ریلیف دینا بھی حکومت اپنے سیاسی مستقبل کے لیے ضروری سمجھتی ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ 16 مئی کو ہونے والے اقتصادی رابطہ کمیٹی کے اجلاس میں مختلف منصوبوں کے لیے 11 ارب روپے کی ضمنی گرانٹس جاری کی گئی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ای سی سی نے 550 ملین روپے کے فنڈز جاری کیے ہیں لیکن یہ موجودہ سیاسی مہم کے لیے ہیں یا کسی پرانی ادائیگیوں کے لیے ہے اس بارے میں وزارت اطلاعات و نشریات کی طرف سے کوئی وضاحت نہیں کی گئی۔


ان کا کہنا تھا کہ حکومت اپنا امیج بہتر کرنا چاہتی ہے لیکن اس وقت ملک کو معاشی حالات میں ابتری کا سامنا ہے جس کی وجہ سے وہ محدود فنڈز جاری کرپا رہی ہے۔

لاہور میں ایک چینل کے سینئر عہدے دار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر حکومت کی جانب سے مفت اشتہارات کے دعوے کی تردید کی اور کہا کہ اس مد میں مکمل ادائیگیاں کی جارہی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ نو مئی کے بعد کچھ ویڈیوز افواجِ پاکستان کے ترجمان ادارے (آئی ایس پی آر) کی طرف سے بھجوائی گئیں جن میں شہدا کے حوالے سے بعض ویڈیوز شامل تھیں انہیں مفت میں اور قومی جذبہ کے تحت چینلز نے چلایا۔ لیکن اس کے بعد اب جو باقاعدہ پی ٹی آئی مخالف ویڈیوز آرہی ہیں ان کے لیے حکومت کی طرف سے باقاعدہ ادائیگی کی جارہی ہے لیکن ان ویڈیوز پر پیڈ کنٹینٹ نہیں لکھا جارہا۔

حکومت کی طرف سے نجی میڈیا کو اشتہارات دینا کوئی نیا معاملہ نہیں ہے بلکہ ماضی میں بھی اس طرح کی اشتہاری کیمپین چلتی رہی ہے۔

حکومت کی طرف سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق سن 2013 سے 2018 تک مسلم لیگ (ن) کے دورِ حکومت میں اشتہارات کی مد میں 15 ارب روپے خرچ کیے گئے۔

اس سے قبل پیپلزپارٹی کے پانچ سالہ دورِ اقتدار میں حکومت نے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے اشتہارات کی مد میں تین ارب 15 کروڑ روپے خرچ کیے۔

خیبرپختونخوا میں پی ٹی آئی کی گورنمنٹ کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ اس نے 2013 سے اپنی حکومت کے اختتام تک ڈیڑھ ارب روپے سے زیادہ کے اشتہارات جاری کیے۔

سندھ، پنجاب اور بلوچستان، گلگت بلتستان اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی حکومتوں نے بھی اربوں روپے اشتہارات پر خرچ کیے۔جب کہ پی ٹی آئی کی حکومت نے صرف 2018 سے نومبر 2021 تک ایک ارب 45 کروڑ روپے اشتہارات کی مد میں خرچ کیے۔

'ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہو رہا'

پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے سابق سیکریٹری اور سینئر صحافی ناصر زیدی کہتے ہیں کہ پاکستان میں حکومتی وسائل کے ذریعے اپوزیشن کو دبانے کی یہ پہلی مثال نہیں ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ ماضی میں بھی حکومتیں سیاسی مخالفین کو دبانے کے لیے اشتہارات کی مد میں اربوں روپے خرچ کرتی رہی ہیں ۔

اُن کا کہنا تھا کہ " آج جو کچھ پی ڈی ایم کی حکومت کررہی ہے کل کو اگر پی ٹی آئی کی حکومت آئے گی تو یہ سب کچھ وہ ان کے خلاف بھی کرے گی۔ ملک مشکلات کا شکار ہے، ایسے میں ایک دوسرے کے خلاف مہم چلانے کے بجائے مل بیٹھ کر بات کرنا چاہیے۔"

پاکستان میں اخبارات اور ٹیلی ویژن پر اشتہارات کے لیے ایک طریقہٌ کار موجود ہے جس کے مطابق سب سے زیادہ ریٹنگ والے چینلز اور زیادہ سرکولیشن والے اخبارات کو زیادہ اشتہارات دیے جاتے ہیں۔

اس مقصد کے وزارت اطلاعات و نشریات میں اے بی سی کا شعبہ موجود ہے جو اخبارات کی سرکولیشن پر نظر رکھتا ہے جب کہ ٹی وی چینلز کے اشتہارات کے لیے میڈیا ریٹنگ ایجنسی کی مدد سے حاصل ہونے والی ریٹنگ کو مدنظر رکھ کر اشتہارات دیے جاتے ہیں۔

گزشتہ دور حکومت میں سرکاری اشتہارات کے ریٹس کم کیے گئے تھے جن پر میڈیا نے شدید تنقید کی تھی۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ حالیہ دنوں میں وزارت داخلہ نے میڈیا ریٹنگ دینے والے ادارے میڈیا لوجک پر بھی ملک دشمن سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا الزام عائد کرکے پابندی عائد کردی ہے۔

XS
SM
MD
LG