اب آپ چکن کو ذبحہ کیے بغیر بھی چکن برگر اور چکن کڑاہی کھا سکتے ہیں یا اس کا باربی کیو بنا سکتے ہیں، کیونکہ امریکی حکومت نے کیلی فورنیا کی دو کمپینوں کو چکن کا گوشت فروخت کرنے کی اجازت دے دی ہے جو چکن کا گلا کاٹے بغیر اس سے بالواسطہ طور پر گوشت حاصل کر رہی ہیں۔
ان کمپنیوں کے نام اپسائیڈ فوڈز اور گڈمیٹ ہیں۔ ان کی فیکٹریوں میں چکن کے خلیے سے گوشت تیار کیا جاتا ہے، جو اپنی ساخت، اجزا اور ذائقے میں ہو بہو چکن جیسا ہے۔ سائنس کی اصطلاح میں اس طریقہ کار کو گوشت کاشت کرنا کہا جاتا ہے کیونکہ یہ گوشت اسی طرح پیدا ہوتا ہے جس طرح زمین میں بیج ڈالنے سے پودا پھوٹتا ہے اور نشو و نما پاتا ہے۔
گوشت تیار کرنے کے لیے زندہ چکن کے جسم سے خلیے حاصل کیے جاتے ہیں اور پلانٹ میں ان کی اسی ماحول میں پرورش کی جاتی ہے اور اسے وہی خوراک مہیا کی جاتی جو اسے قدرتی طور پر چکن کے جسم کے اندر ملتی ہے۔
چونکہ یہ ایک بالکل نئی چیز ہےاور مختلف کمپنیاں اس پر کام کر رہی ہیں، اس لیے اس گوشت کو مختلف نام دیے جا رہے ہیں۔ کچھ ایسے کلچرڈ میٹ کہتے ہیں، کچھ اسے لیبارٹری کے حوالے سے لیب میٹ کہہ رہے ہیں اور کچھ سائنسی اصطلاح کی بنیاد پر اسے سیل میٹ کے نام سے پکار رہے ہیں۔
گوشت کو فروخت کے لیے پیش کرنے کا لائسنس تو ابھی دو ہی کمپنیوں کو ملا ہے لیکن دنیا بھر میں 150 سے زیادہ کمپنیاں اس پر کام کر رہی ہیں اور ان کے تجربات صرف چکن تک ہی محدود نہیں ہیں بلکہ بھیڑ ، گائے اور دوسرے جانوروں کا گوشت لیبارٹری میں کاشت کرنے کے تجربات ہو رہے ہیں۔
خوراک کی طلب میں اضافے کا حل
ماہرین کہتے ہیں کہ انسان کا مستقبل مشینوں پر تیار کیے جانے والے گوشت میں ہے ۔ دنیا بھر میں گوشت کا استعمال بڑھ رہا ہے۔ پاکستان میں بجٹ سے پہلے جاری ہوئے والے اقتصادی جائزے میں بتایا گیا تھا کہ ملک میں گزشتہ سال گوشت کی کھپت میں ایک ہزار ٹن کا اضافہ ہوا۔ یہ اضافہ اس کے باوجود ہوا کہ ملک میں مہنگائی کی شرح 38 فی صد کی ریکارڈ سطح کو پہنچ چکی تھی۔
یہ چھوٹی سی مثال گوشت کے استعمال میں مسلسل اضافے کو ظاہر کرتی ہے۔ بڑھتی ہوئی مانگ کو پورا کرنے کے لیے جانوروں کی افزائش بڑھانے کی ضرورت ہے جس کے لیے مزید فارم بنانے پڑیں گے۔ ان کی خوراک اور صحت کے اضافی انتظامات کرنے پڑیں گے۔ بڑے جانوروں کے لیے مزید چراہگاہوں کی ضرورت پڑے گی۔ جب کہ دوسری جانب زمین کی رسد اور وسائل گھٹ رہے ہیں۔ انسانی آبادی 8 ارب کے ہندسے کو عبور کر چکی ہے۔ زیادہ تر قابل کاشت زمینوں کو استعمال میں لایا جا چکا ہے۔ آب و ہوا کی تبدیلی اور شدید تر ہوتے ہوئے موسم زمینوں کی زرخیزی اور فصلوں کی پیداوار پر منفی اثرات ڈال رہے ہیں۔
اقوام متحدہ کی گزشتہ سال کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ 2080 کے عشرے میں انسانی آبادی 10 ارب کا ہندسہ عبور کر جائے گی۔سائنس دان اس ہندسے کو بہت اہم قرار دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ زمین کے تمام وسائل زیادہ سے زیادہ 10 ارب انسانوں کی ضروریات کا بوجھ سہار سکتے ہیں۔ مگر اس کے لیے بھی بہت سے جانوروں کو قربانی دینی پڑے گی۔ کیونکہ خوراک کے دستیاب وسائل انسانوں اور جانوروں میں تقسیم ہوتے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ خوراک کی بڑھتی ہوئی ضروریات اور جانوروں کی تعداد میں امکانی کمی کے پیش نظر گوشت حاصل کرنے کے متبادل طریقے تلاش کرنے اور انہیں ترقی دینے کی ضرورت ہے۔ وہ جین سے گوشت کی تیاری کو ایک مثبت قدم کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔
آب و ہوا کی تبدیلی پر کنٹرول میں مددگار
جین سے گوشت کی تیاری کے کچھ فوائد بھی ہیں۔ اس کے لیے جانوروں کا گلا نہیں کاٹنا پڑے گا کیونکہ کچھ لوگ انہیں ہلاک کرنے کے خلاف ہیں۔ فیکٹریوں میں گوشت کاشت کرنے سے جانوروں کے لیے فارم اور چراہگاہیں قائم کرنے کی ضرورت گھٹ جائے گی اور ان وسائل کوانسانی ضروریات کے لیے استعمال کیا جا سکے گا۔ اس کا اندازہ امریکہ کے زرعی شعبے کے اعداد و شمار سے لگایا جا سکتا ہے جہاں ایک ارب ایکٹر سے زیادہ زرعی اراضی کے نصف سے زیادہ حصے پر چراہگائیں ہیں۔ اس سے آب و ہوا کی تبدیلی کے عمل کو روکنے اور گلوبل وارمنگ کم کرنے میں بھی مدد ملے گی کیونکہ بڑے جانور بڑی مقدار میں کاربن گیسیں خارج کرتے ہیں جو عالمی حدت میں اضافے کا سبب بنتی ہیں۔
جین سے گوشت کیسے بنتا ہے
ہر جاندار کی بنیادی اکائی ایک جین ہے۔ جین ایک زندہ چیز ہے۔ایک جین یا خلیہ خود کو تقسیم کرکے دوسرا خلیہ بنا دیتا ہے اور یہ سلسلہ مسلسل چلتا رہتا ہے۔جس سے اس کی تعداد کے ساتھ ساتھ اس کی جسامت بھی بڑھتی جاتی ہے۔ یہ عمل روزمرہ زندگی میں ہمارے مشاہدے میں آتا ہے۔ مثلاً بیج کا پھوٹ کر پودا بننا اور پھر رفتہ رفتہ ایک تناور درخت کی شکل میں ڈھل جانا۔ چوزے کا چکن بن جانا۔ بچے کا جوان ہو جانا، یہ سب خلیوں کی تعداد میں مسلسل اضافے کاثمر ہے۔
جب ہم جسم کے کسی حصے کے ایک خلیے کو لیبارٹری میں نشوو نما کےلیے قدرتی ماحول جیسے حالات مہیا کرتے ہیں تو ان کی تعداد میں اضافہ ہونے لگتا ہے ۔ کچھ عرصے میں وہ ایک خلیے سے گوشت کے ایک ٹکڑے میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ لیبارٹری میں اس وقت خلیوں سے جو گوشت بنایا جا رہا ہے ، اس کے مختلف سائز کے ٹکڑے تیار کرنے میں چار سے آٹھ ہفتے لگتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں آپ کم مدت میں گوشت تیار کر سکتے ہیں اور اسے جس سانچے میں آپ بنائیں گے وہ اسی شکل میں ڈھل جائے گا۔ آج کل یہ کمپنیاں فاسٹ فوڈ میں استعمال ہونے والا گوشت تیار کر رہی ہیں، جس میں برگر کے لیے قیمہ، چکن نگٹس، چکن برسٹ وغیرہ شامل ہیں۔
پودوں سے تیار کرہ گوشت
چند سال پہلے ایک نیا گوشت مارکیٹ میں لایا گیا تھا جسے پودے کے جین میں تبدیلی کر کے بنایا گیا تھا۔ پودا بھی ایک جاندار ہے ۔ اس کے جین اور ایک جانور کے جین میں کچھ فرق ہوتا ہے جسے دور کر کے گوشت کاشت کیا گیا تھا۔ یہ زیادہ تر قیمے اور اس کی مصنوعات کی شکل میں بنایا جاتا ہے۔ امریکہ کے اکثر فاسٹ فوڈ اسٹوز پر اس کے برگر اور دوسری مصنوعات مل جاتی ہیں جن میں امپاسیبل برگر زیادہ مشہور ہے۔ اب اس گوشت کے پیکٹ گراسری اسٹوروں پر بھی دستیاب ہیں۔ تاہم ظاہری مشابہت کے باوجود اس کا ذائقہ اصلی گوشت جیسا نہیں ہے، لیکن اس کے بہت قریب ہے۔ جب کہ جین سے سے تیار کردہ گوشت کے متعلق بتایا جا رہا ہے کہ وہ ہر لحاظ سے اصلی حقیقی گوشت جیسا ہے۔
خلیے سے تیار کردہ گوشت کب دستیاب ہو گا
چکن کے خلیے سے تیار کیے جانے والے گوشت کی گھروں تک دستیابی میں چند سال لگ سکتے ہیں۔ فی الحال یہ گوشت صرف فاسٹ فوڈ اسٹورز کو ہی فراہم کیا جائے گا۔کیونکہ اس کی رسد بہت محدود ہے۔ اس کی فراہمی میں اضافے اور عوام میں قبولیت بڑھنے کے بعد ہی اسے گراسری اسٹوز پر لایا جائے گا۔ ایسوسی ایٹڈ پریس کی جانب سے کرائے گئے ایک حالیہ سروے میں بتایا گیا ہے کہ نصف کے لگ بھگ امریکی فی الحال فیکٹریوں میں تیار کردہ گوشت کے بارے میں شکوک و شہبات کا شکار ہیں اور وہ اسے آزمانے سے ہچکچا رہے ہیں۔ آنے والا وقت ہی اس کے مستقبل کا فیصلہ کرے گا۔