پیر کو میسیڈونیا کی پولیس نے یونان سے سرحد پار کر کے آنے کی کوشش کرنے والے پناہ گزینوں کو روکنے کے لیے آنسو گیس استعمال کی۔
گزشتہ ہفتے میسیڈونیا نے عارضی طور پر اپنی سرحد کو بند کر دیا تھا اور دوبارہ سرحد کھولنے کے بعد یونان سے صرف چند سو لوگوں کو سرحد پار کرنے کی اجازت دی تھی۔
ادھر ہزاروں افراد روزانہ کشتیوں میں بیٹھ کر یونان پہنچ رہے ہیں جہاں سے وہ میسیڈونیا جانا چاہتے ہیں۔
پیر کو سینکٹروں افراد نے یونان اور میسیڈونیا کی سرحد پر نصب باڑ کو توڑنے کی کوشش کی جس کے بعد پولیس نے شامیوں اور عراقیوں کے ایک گروہ پر آنسو گیس پھینکی۔
یورپی کونسل کے صدر ڈونلڈ ٹسک یورپ میں پناہ گزینوں کے بحران سے نمٹنے کے سلسلے میں چار ملکی دورے پر روانہ ہو گئے ہیں۔
ڈونلڈ ٹسک نے اپنا دورہ آسٹریا سے شروع کیا جس نے اپنے ملک میں آنے والے پناہ گزینوں کی تعداد کو محدود رکھنے کی پالیسی پر سختی سے عملدرآمد کیا ہے۔
پناہ گزینوں کے راستے میں آنے والے دیگر ممالک نے بھی ایسے اقدامات کیے ہیں جن سے یورپی یونین کے ملکوں میں جانے کے خواہش مند پناہ گزین سرحدوں پر محصور ہو گئے ہیں۔
اقوام متحدہ، انسانی حقوق کی تنظیموں اور یورپی یونین کے دیگر ممالک، خصوصاً جرمنی نے ان پابندیوں پر شدید تنقید کی ہے۔
جرمنی کی چانسلر آنگیلا مرخیل نے کہا کہ ’’جب ایک ملک اپنی حدود متعین کرتا ہے تو دوسرے ملک کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے۔ یہ میرا یورپ نہیں۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ یورپی یونین کو کوئی ایسا فیصلہ نہیں کرنا چاہیئے جس میں یونان کو تنہا چھوڑ دیا جائے جہاں اس سال ایک لاکھ سے زائد پناہ گزین آ چکے ہیں۔
آسٹریا کے بعد ڈونلڈ ٹسک، سلووینیا، کروئیشیا اور میسیڈونیا جائیں گے۔ اگلے ہفتے یورپی یونین ترکی میں ایک سربراہ اجلاس منعقد کر رہی ہے جسے اس حوالے سے دباؤ کا سامنا ہے کہ وہ مشرق وسطیٰ سے یورپ آنے والے پناہ گزینوں کو روکے۔
اُدھر فرانس میں حکام نے پیر کو ملک کے شمالی شہر کیلے میں واقع پناہ گزینوں کی ایک غیر قانونی کچی آبادی کو مسمار کرنا شروع کر دیا جہاں سے یہ افراد برطانیہ پہنچنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
کچی آبادی کو گرانے کے لیے سرکاری اہلکار پولیس کی بھاری تفری کے ساتھ کیلے میں موجود تھے جہاں لگ بھگ تین ہزار افراد مقیم ہیں۔
پیر کو جائے وقوعہ پر موجود خبررساں ادارے روئیٹرز کے فوٹو گرافر کے مطابق پولیس نے آنسو گیس استعمال کی جس کے بعد لگ بھگ ڈیڑھ دو سو تارکین وطن نے پولیس پر پتھراؤ کیا جبکہ تین جھگیوں کو آگ لگا دی گئی۔
تاہم فرانس کے حکام کا اصرار ہے کہ وہ وہاں موجود تمام عارضی گھروں کو مسمار کر دیں گے۔
فرانس کے وزیر داخلہ نے گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ حکام امدادی تنظیموں کے ساتھ مل کر ان افراد کو قریب ہی واقع ایک پارک میں موجود کنٹینروں یا فرانس میں قائم پناہ گزینوں کے دیگر مراکز میں منتقل کریں گے۔
مگر یہ لوگ فرانس کی بجائے برطانیہ میں پناہ چاہتے ہیں اور ان میں سے کئی زیر سمندر سرنگ استعمال کر کے برطانیہ پہنچنے کی کوشش کر چکے ہیں۔
یہاں مقیم اکثر تارکین وطن کا تعلق افغانستان، شام اور مشرق وسطیٰ اور افریقہ کے دیگر ممالک سے ہے جو جنگ یا غربت سے بھاگ کر غیر قانونی طور پر یہاں آئے ہیں۔
دریں اثنا امریکہ کے وزیر خارجہ جان کیری نے پیر کو کہا کہ پناہ گزینوں کا بحران پوری دنیا کے لیے ایک مسئلہ ہے اور شام میں جنگ کا خاتمہ اس مسئلے کا بہترین حل ہے۔