افغانستان میں طالبان کے کنٹرول کے بعد خطے کی سیاسی اور معاشی صورتِ حال پر اس کے گہرے اثرات مرتب ہونے کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔ افغانستان سے اس کے پڑوسی ممالک میں سب سے طویل 2600 کلو میٹر سے زائد کی سرحد پاکستان کے ساتھ ہے اور اس میں سے 1468 کلومیٹر طویل سرحد پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے ساتھ ہے۔
صوبہ بلوچستان کے ساتھ اس طویل بارڈر پر افغانستان کے چار صوبے لگتے ہیں جن میں ہلمند، قندھار، نمروز اور زابل شامل ہیں۔ ایسے میں سیاسی اور دفاعی پنڈت ماضی کی طرح اس مرتبہ بھی افغانستان کی صورتِ حال کا براہ راست اثر بلوچستان پر پڑنے کا خدشہ ظاہر کر رہے ہیں۔
تاریخی طور پر بھی دیکھا جائے تو پاکستان اور افغانستان کے درمیان ڈیورنڈ لائن کہلانے والی سرحد کے دونوں جانب صدیوں سے آزادانہ تجارت، رشتہ داریوں اور آپسی تعلقات کے سبب آمدورفت جاری رہی ہے۔
سن 1979 میں سوویت یونین کے افغانستان پر حملے اور اس کے بعد پیدا شدہ صورتِ حال میں جب لاکھوں افغان شہری پاکستان پناہ لینے پہنچے تو پشاور کے بعد صوبائی دارالحکومت کوئٹہ افغان شہریوں کا دوسرا بڑا مسکن بن گیا۔
'بلوچستان میں بدامنی بڑھنے کے خدشات ہیں'
کوئٹہ میں قائم بلوچستان کونسل فار پیس اینڈ پالیسی کے صدر ڈاکٹر میر سادات بلوچ کا کہنا ہے کہ افغانستان کے موجودہ حالات بلوچ قوم پرستوں سے زیادہ بلوچستان میں مقیم پشتون قوم پرستوں کو سیاسی طور پر بہت زیادہ متاثر کریں گے۔
دوسری جانب بلوچستان میں گزشتہ چند ماہ میں بد امنی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے جس میں امریکی اور نیٹو افواج کے انخلا کے بعد مزید تیزی دیکھی گئی ہے۔
سادات بلوچ کے مطابق بلوچ عسکریت پسند جو اس وقت افغانستان میں موجود ہیں درحقیقت بتانا چاہتے ہیں کہ وہ اپنی طاقت کے ساتھ موجود ہیں اور یہی وجہ ہے کہ وہ یہاں مزید حالات خراب کرنے کی کوشش کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ پہلے بھارت یا دیگر پاکستان مخالف قوتوں پر بلوچ قوم پرستوں کی مدد کرنے کے الزامات لگتے تھے۔ لیکن اب افغانستان میں تبدیلی کے بعد قوم پرستوں کے لیے 'مارو یا مر جاؤ' والی صورتِ حال ہے۔
اُن کے بقول اس بات کے خدشات موجود ہیں کہ آنے والے دنوں میں بلوچستان میں حالات خراب ہوں۔ ان کا کہنا تھا کہ اس بات کے اشارے اس بات سے بھی ملتے ہیں کہ بلوچستان میں تین ماہ میں قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں کا جس قدر جانی نقصان ہوا ہے وہ گزشتہ تین برسوں سے زیادہ ہے۔
میر سادات بلوچ کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ بارڈر پر خاردار تاریں لگا کر اسے بند کرنے کا کام اب تک مکمل نہیں ہوا ہے۔ اور ان کے خیال میں کچھ دشوار گزار علاقے اب بھی کھلے ہوئے ہیں جن سے ایسے لوگوں کا آنا جانا آسان ہے جب کہ مستقبل میں بھی یہ سلسلہ جاری رہنے کا امکان ہے۔
ماہرین کا یہ بھی خیال ہے کہ افغانستان میں مضبوط حکومت کی عدم موجودگی کی صورت میں بلوچستان میں حملے کرنے والے عسکریت پسند گروہوں کے ساتھ نسلی اور فرقہ وارانہ بنیادوں پر اقلیتوں کو نشانہ بنانے والے گروپ بھی مزید فعال ہو سکتے ہیں۔
اسی طرح بلوچستان نیشنل پارٹی کے رہنما اور رکن صوبائی اسمبلی ثنا اللہ بلوچ کا بھی کہنا ہے کہ افغانستان کے حالات کی وجہ سے صوبہ بلوچستان میں امن و امان کی صورتِ حال بھی خراب رہی ہے۔
ان کے بقول اس میں مزید خرابی کے خدشات موجود ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ بلوچستان میں پہلے ہی گزشتہ چند ماہ میں قتل، اغوا برائے تاوان اور دیگر وارداتوں میں اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔
'ماضی میں پناہ گزینوں کی آمد سے آبادی میں عدم توازن بڑھا'
ڈاکٹر میر سادات بلوچ کے خیال میں گزشتہ چار دہائیوں میں افغان پناہ گزینوں کی بڑی تعداد کے بلوچستان آمد سے پہلے ہی آبادیات پر منفی اثر پڑ چکا ہے۔ بہت سے لوگوں نے یہاں کے شناختی کارڈ حاصل کر لیے اور وہ یہاں رچ بس چکے ہیں۔ تاہم 2014 میں آرمی پبلک اسکول پشاور پر حملے کے بعد اس معاملے میں کچھ سختی کی گئی۔
اسلام آباد کی قائدِ اعظم یونی ورسٹی میں ایسوسی ایٹ پروفیسر اور اسکول آف پولیٹکس اینڈ انٹرنیشنل ریلیشنز کے ڈائریکٹر ڈاکٹر فرحان حنیف صدیقی نے پاکستان میں قومیت کے موضوع پر تحقیقی مقالے اور کئی آرٹیکلز لکھے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں 'ڈیموگرافک اِم بیلنس' یا آبادیاتی عدم توزان کی دلیل تو پہلے سے موجود تھی۔ لیکن ان کے خیال میں موجودہ صورتِ حال میں افغان پناہ گزینوں کی بلوچستان آمد پر اصل مسئلہ اس سے جڑی سماجی اور معاشی صورتِ حال کا ہے۔
اُن کے بقول مقامی افراد سمجھتے ہیں کہ ان کا حق مارا جاتا ہے۔ حالانکہ بلوچستان وسائل سے مالا مال خطہ ہے لیکن معاشی طور پر خوشحال ہونے میں اسے کئی رکاوٹوں کا سامنا ہے جس کی وجہ سے یہاں ایسے مسائل جنم لے سکتے ہیں۔
میر سادات بلوچ کا کہنا ہے کہ بارڈرز مکمل طور پر بند نہ ہونے سے بلوچستان میں غذائی قلت کے خدشات بھی موجود رہیں گے کیونکہ بلوچستان سے بڑی تعداد میں اشیا افغانستان اسمگل ہونا معمول کی بات ہے۔
'افغان پناہ گزینوں کی آمد سے بلوچستان کے لوگوں کی زندگی اور بھی مشکل ہوگی'
ثنا اللہ بلوچ کا کہنا ہے کہ افغانستان کا بحران شروع ہونے سے ہی بلوچستان براہ راست اس کی زد میں رہا ہے۔
اُن کے بقول بلوچستان کی معاشی، معاشرتی، اور بالخصوص آبادی کے تناسب میں تبدیلی واقع ہوئی۔ ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان کا معاشرہ ایک پر امن معاشرہ تھا لیکن اس بحران سے منفی اثرات مرتب ہوئے۔
ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ ماہ افغانستان میں ایک بار پھر طالبان کی حکومت آنے سے بہت بڑی تعداد میں لوگ بلوچستان منتقل ہوئے ہیں اور کوئٹہ کے اردگرد ہزاروں کی تعداد میں ایسے خاندان موجود ہیں۔
ان کے خیال میں حکومت مہاجرین کی آمد کو نظر انداز کر رہی ہے اور اسے ماننے کو بھی تیار نہیں۔
انہوں نے کہا کہ پناہ گزینوں کی رجسٹریشن کے حوالے سے بھی کوئی طریقۂ کار بھی موجود نہیں۔ انہیں کیمپس تک محدود نہیں رکھا جا رہا۔ اس لیے افغانستان سے لوگوں کی آمد کی وجہ سے صوبے کے انفراسٹرکچر خصوصاً صحت، تعلیم، گیس، پانی بجلی پر اضافی بوجھ پڑے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ صوبے میں پہلے ہی بیڈ گورننس کی شکایات کی وجہ سے مقامی لوگ بہت زیادہ پریشانی کا شکار تھے اور جب مزید پناہ گزین آئیں گے تو ان کے لیے وسائل کا حصول اور بھی مشکل ہو گا۔
لیکن بلوچستان میں برسر اقتدار جماعت بلوچستان عوامی پارٹی کے سینیٹر انوار الحق کاکڑ کے خیال میں طالبان کی حکومت کے بعد پیدا شدہ صورتِ حال میں بہت زیادہ افغان پناہ گزینوں نے پاکستان کا رُخ نہیں کیا ہے۔ جو ایک اچھی بات ہے ورنہ اس کا اثر صوبے کے قلیل وسائل پر پڑتا۔
اُن کے بقول کرونا وبا کے باعث صوبہ پہلے ہی معاشی مشکلات سے دوچار ہے اور ایسے میں مزید مہاجرین کا بوجھ برداشت نہیں کر سکتا۔
ڈاکٹر فرحان حنیف کے خیال میں اگر طالبان افغانستان میں امن و استحکام قائم کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو پھر بلوچستان کے پشتون اور بلوچ قوم پرستوں دونوں ہی کا یہ مطالبہ ہو گا کہ افغان پناہ گزینوں کو دوبارہ افغانستان بھیجا جائے اور انہیں وہیں آباد کیا جائے۔
'ریاستی پالیسی ہے کہ حالات بہتر ہونے پر افغان مہاجرین کو وطن واپس بھیجا جائے'
ڈاکٹر فرحان حنیف کا کہنا ہے کہ اس وقت ریاستی مؤقف بھی یہی ہے کہ حالات بہتر ہونے پر افغان مہاجرین کو واپس ان کے وطن بھیجا جائے۔ کیونکہ مہاجرین کی آڑ میں دہشت گردی، منشیات کی اسمگلنگ اور دیگر جرائم کے نیٹ ورک بھی پاکستان میں آپریٹ کرتے رہے ہیں۔ دوسری جانب پاکستان کی اپنی معاشی حالت بھی انتہائی کمزور ہے جو مہاجرین کا اس قدر بوجھ نہیں اٹھا سکتی۔
'آنے والے وقت میں امن و امان میں بہتری کی امید ہے'
سینیٹر انوار الحق کاکڑ کے خیال میں آنے والے دنوں میں امن و امان کی صورتِ حال بہتر ہو گی۔
انہوں نے الزام عائد کیا کہ گزشتہ 20 برسوں میں افغانستان کی خفیہ ایجنسی اور بھارتی حکومت کی مدد سے بلوچ عسکریت پسندوں کے 60 کے قریب ٹریننگ کیمپس قائم تھے جہاں انہیں پاکستان میں حالات خراب کرنے کے لیے پیسے اور تربیت فراہم کی جاتی رہی۔
خیال رہے کہ بھارت اور افغانستان کی گزشتہ حکومت ان الزامات کی تردید کرتے رہے ہیں۔
انوار الحق کاکڑ کے بقول افغانستان میں طالبان کی حکومت کے قیام سے اب یہ مبینہ کیمپس آپریٹ نہیں کر پائیں گے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ حالیہ دنوں میں بارڈر فینسنگ مکمل ہونے سے سرحد کے آر پار آنے جانے والے لوگوں کا ریکارڈ رکھنا ممکن ہو سکے گا جس سے دہشت گردی، منشیات کی اسمگلنگ اور دیگر جرائم میں ملوث ملزمان کی روک تھام ممکن ہو سکے گی۔
افغان مسئلے سے جُڑے بلوچستان کے مسائل کا حل کیا ہے؟
ڈاکٹر میر سادات بلوچ کے مطابق اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ لوگوں کے مسائل حل کرنے پر زور دیا جائے، نوجوانوں کو زیادہ سے زیادہ ترقی کے مواقع فراہم کیے جائیں۔ تاکہ وہ اپنی توانائیاں ملکی تعمیر و ترقی میں خرچ کریں۔
اُن کے بقول ریاست نے اب تک نوابوں اور سرداروں پر سرمایہ کاری کی جب تک یہ سرمایہ کاری عوام پر نہیں کی جائے گی یہاں پائی جانے والی بے چینی کا خاتمہ ممکن نہیں ہو گا۔
انوار الحق کاکڑ اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ بلوچستان میں حالات کو بہتر بنانے کے لیے جہاں بعض پالیسی اقدامات کی ضرورت ہے وہیں صوبے کے نوجوانوں کو مواقع اور ان کا رجحان مثبت سرگرمیوں کی جانب مائل کرنے کی ضرورت ہے۔ جس کے لیے چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کے منصوبوں کو جلد پایۂ تکمیل تک پہنچایا جانا ضروری ہے۔