ایک دوا ساز کمپنی، میرک اینڈ کو نے جمعہ کو بتایا ہے کہ کرونا وائرس میں مبتلا مریضوں کے لیے اس کی تیار کردہ تجرباتی دوا کے استعمال سے اسپتالوں میں ان کے داخلے اور اموات کی تعداد میں نصف تک کمی ہوئی ہے۔ کمپنی کا کہنا ہے کہ وہ جلد ہی امریکہ اور دنیا بھر میں صحت کے حکام سے اس دوا کے باضابطہ استعمال کی اجازت کے لیے درخواست دے گی۔
میرک کی دوا کوویڈ 19 کے علاج کی پہلی دوا ہو گی جو اس عالمی وبا کے خلاف لڑائی میں ممکنہ طور پر ایک بڑی پیش رفت ہے۔ اب تک کرونا سے بچاؤ کے لیے ویکسین لگائی جا رہی ہے اور اس مرض میں مبتلا ہونے کے بعد فی الحال اس کا کوئی شافی علاج دستیاب نہیں ہے۔
اب تک اس سلسلے میں مریض کو جو دوائیں دی جاتی ہیں وہ اس کی علامات کی شدت کو کنٹرول کرنے کے لیے ہوتی ہیں، جب کہ یہ وائرس اپنا دورانیہ مکمل ہونے کے بعد خود ہی ختم ہو جاتا ہے۔
میرک اور اس کی شراکت دار کمپنی رجج بیک بائیو تھراپیٹکس کے ایک اعلان میں کہا گیا ہے کہ ابتدائی نتائج سے یہ ظاہر ہوا ہے کہ کوویڈ-19 کی علامات ظاہر ہونے کے پانچ دن کے اندر جن مریضوں پر یہ دوا استعمال کی گئی، ان کے اسپتال میں داخلے اور اموات کی تعداد دوا استعمال نہ کرنے والوں کے مقابلے میں تقریباً آدھی تھی۔
اس دوا کے تجربات کرونا وائرس میں مبتلا 775 ایسے مریضوں پر کیے گئے جو موٹاپے، شوگر یا دل کے امراض میں مبتلا تھے اور مہلک وائرس ان کے لیے زیادہ خطرے کا سبب بن سکتا تھا۔
یہ دوا جس کا نام 'مولنوپیروائر' ہے، استعمال کرنے کے 30 دن کے بعد کے نتائج کے مطابق اسپتال میں داخل ہونے یا مرنے والوں کی تعداد 7 اعشاریہ 3 فی صد تھی جب کہ جن مریضوں کو نقلی دوا دی گئی تھی ان میں اسی مدت کے دوران اسپتال میں داخل یا مرنے والوں کی شرح 14 اعشاریہ 1 فی صد ریکارڈ کی گئی۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ نقلی دوا استعمال کرنے والے گروپ میں 8 اموات ہوئیں جب مولنوپیروائر گروپ میں کوئی ہلاکت نہیں ہوئی۔ میرک کا کہنا ہے کہ وہ مستقبل میں یہ نتائج طب سے متعلق اجلاس میں پیش کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔
میرک ریسرچ کے نائب صدر ڈاکٹر ڈین لی نے کہا ہے کہ اس کلنیکل ٹرائل کے نتائج ہماری توقعات سے کہیں بڑھ کر ہیں۔ اس دوا کے استعمال سے اسپتال میں داخلے یا اموات میں نصف کمی ہونا ایک نمایاں کامیابی ہے۔
تجربات کے دوران اصلی اور نقلی دوا استعمال کرنے والے دونوں گروپوں نے سائیڈ ایفکٹس کی نشاندہی کی۔ لیکن یہ سائیڈ ایفکٹس ان لوگوں میں بھی دیکھے گئے جنہیں یہ دوا نہیں دی گئی تھی۔
ابتدائی مطالعے کے نتائج سے پتا چلتا ہے کہ اس دوا سے ان مریضوں کو فائدہ نہیں ہوا جو شدید بیماری کی وجہ سے پہلے ہی اسپتال میں داخل تھے۔
امریکہ نے اس سے قبل کرونا وائرس میں مبتلا مریضوں کے علاج کے لیے ایک اینٹی وائرل دوا ریمڈیسویر کی منظوری دی ہے جب کہ ہنگامی استعمال کے لیے تین اینٹی باڈیز تھراپیز کی بھی اجازت دی گئی ہے۔ لیکن یہ تمام ادویات اسپتال میں علاج کے دوران دی جاتی ہیں۔
طبی ماہرین، جن میں امریکہ کے متعدی امراض کے ماہر ڈاکٹر انتھونی فاوچی بھی شامل ہیں، طویل عرصے سے گولی کی شکل میں ایک ایسی دوا تیار کرنے پر زور دے رہے ہیں جسے کرونا وائرس کی علامتیں ظاہر ہوتے ہی مریض کو دیا جا سکے۔ اس طرح کی دواؤں سے مستقبل میں وبائی امراض کی لہروں پر قابو پانے میں مدد مل سکتی ہے۔
میرک کی یہ دوا ایک خاص انزائم کے ساتھ مل کر کرونا وائرس کے خلاف کام کرتی ہے اور اس کے جینیاتی کوڈ کی نقل تیار کرتی ہے، جس سے مرض پر قابو پانے میں مدد ملتی ہے۔
اس دوا نے دوسرے وائرسز کے خلاف بھی بہتر نتائج ظاہر کیے ہیں۔
امریکی حکومت نے کہا ہے کہ اگر ایف ڈی اے اس دوا کی منظوری دے دیتا ہے تو وہ اس کی 17 لاکھ خوراکیں خریدے گی، جب کہ میرک نے کہا ہے کہ وہ اس سال کے آخر تک ایک کروڑ خوراکیں تیار کر سکتی ہے۔ اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ دنیا کے دیگر ملکوں کے ساتھ بھی رابطے میں ہے۔
کمپنی کی جانب سے فی الحال دوا کی قمیت کے متعلق کچھ نہیں کہا گیا۔