عرب دنیا میں سیاسی تبدیلیوں کا جو سلسلہ کچھ ماہ پہلے شروع ہوا وہ اب بھی جاری ہے۔ تیونس کےزین العابدین بن علی اور مصر کے حسنی مبارک کے بعد لیبیا میں معمر قدافی کو بھی اقتدار سے الگ ہونا پڑا ۔ واشنگٹن میں ماہریٕن ان تبدیلیوں پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں۔ لیبیا کے حالات کی روشنی میں اب ایک سوال یہ بھی اٹھایا جانے لگا ہے کہ آیا اس صورتحال کا کوئی اثر شام کے حالات پر پڑے گا یا نہیں۔
کئی مہینوں کی لڑائی کے بعد حکومت مخالفین گزشتہ ہفتے نیٹو طیاروں کے سائے میں لیبیا کے دارالحکومت طرابلس میں داخل ہوئے۔ عرب سپرنگ یا عرب دنیا میں بہار کے نام سے شروع ہونے والی تحریک اب بھی جاری ہے مگر خطے کے کچھ مطلق العنان رہنماؤں کے لئے یہ تبدیلی خزاں کا موسم ثابت ہو رہی ہے۔ بظاہر ایسے لگتا ہے کہ کئی عشروں تک اقتدار پر قابض رہنے کے بعد اب لیبیا کے معمر قدافی کا دور اختتام کو پہنچ رہا ہے۔ عرب دنیا میں آنے والی تبدیلیوں پر نظر رکھنے والے ماہرین لیبیا کے بعد اب شام کو بہت دلچسپی سے دیکھ رہے ہیں۔
ماہرین ٕ کہتے ہیں کہ لیبیا کے برعکس شام سیاسی اور جغرافیائی اعتبا رسے عرب دنیا کے وسط میں ہے اس لئے وہاں لیبیا جیسے حالات پیدا ہونا ناممکن ہے۔ عرب دنیا میں تاریخی تبدیلیاں پاکستان کے لئے کیا معنی رکھتی ہیں ؟ ماہرین کا کہنا ہے کہ طویل المدت بنیادوں پر شاید ان تبدیلیوں سے مذہبی انتہا پسند گروہوں جیسے القاعدہ یا طالبان کی حمایت میں کمی واقع ہو مگر یہ اثر بہت محدود ہوگا۔ سینٹر فار اسٹرٹیجک اسٹڈیزسے منسلک تجزیہ کار مارک کواٹرمین کہتے ہیں کہ پاکستان مشرق وسطیٰ کے ممالک سے مختلف ہے۔
ان کا کہناہے کہ پاکستان میں کسی نہ کسی شکل میں جمہوریت رہی ہے۔مشرق وسطیٰ میں جن حکمرانوں کو اقتدار چھوڑنے پر مجبور کیا گیا ہے وہ فوجی طاقت کے بل بوتے پر اقتدار میں رہے تھے۔
مشرق وسطیٰ میں سیاسی تبدیلیوں کا اسرائیل اور فلسطین کے تنازعے پر کیا اثر ہوگا ، یہ وہ سوال ہے جو واشنگٹن کے تحقیقی اداروں میں تواتر سے زیر بحث آتا ہے۔ واشنگٹن انسٹی ٹیوٹ فار نیئر ایسٹ پالیسی سے منسلک تجزیہ نگار ڈیوڈ پولک کہتے ہیںٕ کہ ستمبر میں اقوام متحدہ کی جانب سے فلسطینی ریاست کی حمایت میں قرار داد کی ممکنہ منظوری فلسطینیوں کے لئے ایک علامتی فتح سے زیادہ کچھ نہیں ہوگی۔
ان کا کہناہے کہ حقیقی معنوں میں اس اقدام کا پوری مسلم دنیا کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ بلکہ خطرہ یہ ہے کہ نعرے بازی اور حقیقت میں مطابقت کا فقدان فلسطینی تحریک کے لئے فائدے کی بجائے مسلہ بن جائے گا۔
مارک کواٹرمین کہتے ہیں کہ طویل مدتی بنیادوں پر عرب دنیا میں ان تبدیلیوں کا کیا اثر ہوگا اس بارے ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہے مگر مختلف ممالک میں عرب اسپرنگ کے مختلف اثرات ہونگے۔لیکن وہ کہتے ہیں کہ یہ طے ہے کہ یہ تبدیلی مسلم دنیا کے لئے ایک امید کی کرن ضرور ہے۔