|
اسلام آباد — افغانستان کی سرحد کے قریب فوج کے ایک قافلے پر عسکریت پسندوں کے حملے میں حکام کے مطابق آٹھ اہلکار ہلاک ہو گئے ہیں۔
خیبر پختونخوا کے قبائلی سرحدی ضلعے خیبر میں پیر کو فوجی قافلے کو نشانہ بنایا گیا۔
رپورٹس کے مطابق فوج کا یہ قافلہ انسدادِ دہشت گردی کی ایک کارروائی کے بعد واپس اپنے اڈے کی جانب لوٹ رہا تھا۔
وائس آف امریکہ کو متعدد سیکیورٹی حکام سے ملنے والی معلومات کے مطابق اس حملے میں تین فوجی اہلکار زخمی بھی ہوئے ہیں جن میں ایک کی حالت تشویشناک ہے۔
ان سیکیورٹی حکام نے میڈیا سے بات کرنے کی اجزات نہ ہونے کے سبب نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر مزید بتایا کہ عسکریت پسندوں کے حملے کے بعد ہونے والی جھڑپ میں متعدد حملہ آور بھی ہلاک ہوئے ہیں۔
پاکستان کی فوج کے شعبہ تعلقاتِ عامہ آئی ایس پی نے اس حوالے سے کوئی بیان جاری نہیں کیا ہے۔
سات پولیس اہلکار اغوا
بنوں میں پولیس کی ایک چوکی پر مسلح افراد نے حملہ کرکے سات اہلکاروں یرغمال بنا لیا ہے۔
پولیس حکام کا دعویٰ ہے کہ اہلکاروں کی بازیابی کے لیے آپریشن شروع کر دیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ خیبر پختونخوا میں ضلع خیبر اور بنوں سمیت کئی اضلاع دہشت گردی کا شکار ہیں اور ان علاقوں میں عسکریت پسند حملے کرتے رہتے ہیں۔
اکثر ان حملوں کی ذمہ داری تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) یا اس سے جڑے گروپ قبول کرتے ہیں۔
پاکستان کے افغان سرحد سے منسلک صوبوں خیبر پختونخوا میں ٹی ٹی پی سے منسلک عسکری گروہوں جب کہ بلوچستان میں علیحدگی پسند تنظیموں نے حالیہ مہینوں میں اپنے حملوں میں اضافہ کیا ہے۔
اسلام آباد میں قائم غیر سرکاری ادارے ’سینٹر فار ریسرچ اینڈ سیکیورٹی اسٹڈیز‘ کے مطابق رواں برس عسکری تنظیموں کے حملوں میں پاکستان کے سیکیورٹی اداروں کے لگ بھگ 1100 اہلکار ہلاک ہو چکے ہیں۔
خیال رہے کہ تحریکِ طالبان پاکستان کو اقوامِ متحدہ دہشت گرد تنظیم قرار دے چکی ہے جب کہ بلوچستان میں سب سے بڑے عسکری گروہ سمجھے جانے والے 'بی ایل اے' کو امریکہ دہشت گرد تنظیم قرار دیتا ہے۔
بی ایل اے نے گزشتہ ہفتے میں بلوچستان میں ہونے والے دو حملوں کی ذمہ داری قبول کی تھی جن میں ایک کوئٹہ کے ریلوے اسٹیشن پر ہونے والے خود کش حملہ بھی شامل تھا جس میں 34 فوجی اہلکار ہلاک ہوئے تھے۔
پاکستانی حکام مسلسل یہ الزام عائد کرتے رہے ہیں کہ ٹی ٹی پی اور بلوچ عسکریت پسندوں کے ٹھکانے افغانستان میں ہیں جہاں سے وہ پاکستان میں حملے کرتے ہیں۔ البتہ افغانستان میں برسرِ اقتدار طالبان ان الزامات کی تردید کرتے ہیں۔
امریکہ کی حکومت کے ایک نگران ادارے ’اسپیشل انسپکٹر جنرل فور افغانستان ری کنسٹرکشن‘ (سیگار) کی رواں ماہ سامنے آنے والی ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ یہ ابھی تک واضح نہیں ہے کہ آیا طالبان افغانستان میں دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہوں کو مکمل طور پر ختم اور دہشت گردوں کی آمد و رفت کو کنٹرول کرنے کی استعداد اور ایسا کرنے کا اقدام کر سکتے ہیں۔
سیگار نے رواں ماہ کے آغاز میں امریکہ کی کانگریس کو اپنی رپورٹ پیش کی تھی جس میں اقوامِ متحدہ کے اخذ کردہ نتائج کا بھی ذکر کیا گیا تھا۔
آٹھ نومبر کو پیش کی گئی اس رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ افغانستان میں القاعدہ کے آٹھ تربیتی مراکز ہیں جہاں وہ ٹی ٹی پی کے جنگجوؤں کو تربیت فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ اس عسکری تنظیم کے لیے افغان جنگجوؤں کا بھی انتظام کرتی ہے۔
اس رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ان حالات میں اقوامِ متحدہ کی پابندیوں کی نگرانی کرنے والی ٹیم نے متنبہ کیا ہے کہ القاعدہ اور ٹی ٹی پی کا اشتراک ’علاقائی خطرے‘ میں تبدیل ہو سکتا ہے۔