بحر الکاہل کے ساحل پر واقع چلی کا ایک جزیرہ ’ ایسٹر آئی لینڈ ‘اپنے قدیم مجسموں کی وجہ سے دنیا بھر میں شہرت رکھتا ہے۔ ایک نئی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ ان مجسموں کا تعلق زیر زمین میٹھے پانی سے ہے۔
ایک اندازے کے مطابق 1250 اور 1500 سن عیسوی کے درمیان بنائے گئے مخصوص انسانی شکل کے ان مجسموں کی تعداد 887 ہے۔
یہ مجسمے موائی کے نام سے موسوم ہیں۔
آثار قدیمہ کے ماہرین کا کہنا ہے کہ انہیں جزیرے میں آباد راپا نوئی قبائل نے بنایا تھا۔ لیکن ماہرین ابھی تک یہ طے نہیں کر سکے کہ اتنی بڑی تعداد میں ایک ہی طرح کے مجسمے بنانے اور انہیں ایک ہی انداز میں نصب کا سبب کیا تھا۔ تاہم اس بارے میں مختلف نظریات موجود ہیں۔
اب تک دریافت ہونے والی موائی مجسموں کی لمبائی تقریباً 5 فٹ سے 33 فٹ اور وزن 82 ٹن تک ہے۔ انہیں بنانے کے لیے آتش فشاں کا خشک لاوا اور راکھ استعمال کی گئی تھی۔
خیال ہے کہ ہر مجسمے کو ایک پراجیکٹ کے طور پر بنایا گیا اور ہر پراجیکٹ میں کئی افراد شامل تھے۔ مجسمے کو لیٹی ہوئی حالت میں زمین پر بنایا گیا اور پھر اسے رسیوں سے باندھ کر کھڑا کیا گیا۔ اس نظریے کو تقویت ایک مجسمے سے ملتی ہے جو کھڑا کرنے کے دوران گر کر ٹوٹ گیا تھا۔ ٹوٹنے والا مجسمه تمام مجسموں سے بڑا ہے۔ اس کی لمبائی 71 فٹ اور وزن 150 ٹن کے لگ بھگ ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ مجسموں کے صرف سر اور دھڑ ہیں، ان کے پاؤں نہیں بنائے گئے۔ مجسموں کو بناتے وقت آنکھوں کے گڑھے خالی چھوڑ دیے جاتے تھے اور مکمل ہونے کے بعد ان میں سیاہ یا سرخ آتش فشانی راکھ بھر دی جاتی تھی۔ کئی مجسمے ایسے بھی ہیں جن کی آنکھیں نامکمل چھوڑ دی گئیں تھیں۔
ایک اور دلچسپ بات یہ ہے کہ اکثر مجسموں کو ایک پلیٹ فارم بنا کر قطار میں کھڑا کیا گیا ہے۔ کئی پلیٹ فارم سمندر کے ساحل پر ہیں لیکن ان پر نصب مجسموں کا چہرے خشکی کی جانب ہیں۔ البتہ چند مجسمے سمندر کی طرف دیکھ رہے ہیں۔
ماہرین کا اندازہ ہے کہ ایک مجسمه بنانے پر تقریباً ایک سال کا عرصہ لگا ہو گیا۔ اور 900 مجسمے بنانے کے لیے سینکڑوں قبائلیوں کو مل کر کام کرنا پڑا ہو گا۔ ایسا یا تو روحانی عقیدے کی بنا پر ہو سکتا یا طاقت کے خوف سے۔
تقریباً سات آٹھ سو سال پہلے چلی کے قبائلیوں نے یہ مجسمے کیوں بنائے ۔ ایک قیاس یہ ہے کہ انہیں جزیرے کو بدرحوں سے بچانے یا نیک روحوں کی خوشنودی کے لیے بنایا گیا ہو گا۔ کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ انہیں بنانے کا مقصد حریف قبائل پر اپنی طاقت اور برتری کی دھاک بٹھانا تھا۔
حال ہی میں ایک نئی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ ان مجسموں کا تعلق مقامی آبادی کی پانی کی ضروريات سے ہے۔ جزیرے میں بارش کی اوسط بہت کم ہے۔ زمین کی ساخت ایسی ہے کہ بارش کا پانی جذب ہونے کی بجائے زیر زمین ہی سمندر کی طرف بہہ جاتا ہے۔ حیرت انگیز طور پر جن علاقوں میں مجسمے نصب کیے گئے ہیں وہاں زمین کے نیچے میٹھا پانی موجود ہے۔ مجسموں کی تعداد پانی کی مقدار کو ظاہر کرتی ہے۔
اگر راپانوئی قبائل مجسمہ سازی کے ساتھ تحریر کے فن سے بھی آشنا ہوتے تو آج ہم یہ قیاس آرائیاں نہ کر رہے ہوتے کہ آخر انہوں نے اتنی بڑی تعداد میں اتنے بڑے مجسمے کیوں بنائے تھے۔