رسائی کے لنکس

بی جے پی کی حکومت یا معلق پارلیمان؟ بھارتی سیاست میں قیاس آرائیوں کا راج


فائل فوٹو
فائل فوٹو

  • اگر مودی انتخابی معرکہ سر کر لیتے ہیں تو یہ کہنا پڑے گا کہ وہ نہرو کے بعد سب سے زیادہ مقبول لیڈر ہیں، تجزیہ کار
  • گزشتہ انتخابات میں بی جے پی کو جن ریاستوں سے زیادہ نشستیں ملی تھیں اس بار اس کی سیٹیں کم ہو رہی ہیں، اوما کانت لکھیڑہ
  • سرویز میں سامنے آنے والی عوامی آرا کو دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ اس بار صورتِ حال غیر یقینی ہے جس کی وجہ سے معلق پارلیمان وجود میں آسکتی ہے، تجزیہ کار
  • سروے ایجنسیوں سے وابستہ مبصرین کا خیال ہے کہ بھارت میں آئندہ حکومت بی جے پی کی ہی ہو گی اور وزارتِ عظمیٰ نریندر مودی ہی سنبھالیں گے۔
  • بی جے پی کی حکومت کا قیام اور مودی کا وزیرِ اعظم بننا دو الگ الگ باتیں ہیں، پروفیسر ابھے کمار دوبے
  • اگر بی جے پی 220 سے 230 نشستیں حاصل کر لیتی ہے تو اسے حکومت سازی سے روکنا ناممکن ہوگا، تجزیہ کار

نئی دہلی _ بھارت میں عام انتخابات کا ساتواں اور آخری مرحلہ یکم جون کو ہو گا لیکن اس سے قبل نئی دہلی کے تجزیہ کار انتخابات کے ممکنہ نتائج اور حکومت سازی کے سلسلے میں قیاس آرائیوں میں مصروف ہیں۔

بعض تجزیہ کار معلق پارلیمان کے وجود میں آنے کی بات کر رہے ہیں جب کہ کچھ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی حکومت بننے اور نریندر مودی کے مسلسل تیسری بار وزیرِ اعظم بننے کی قیاس آرائی بھی کر رہے ہیں۔

ایک طبقہ ایسا بھی ہے جس کے مطابق اس الیکشن میں عوام کا موڈ بھانپنا انتہائی مشکل ہے۔

انتخابات کے آخری مرحلے میں ہفتے کو 57 نشستوں پر ووٹ ڈالے جائیں گے۔ اسی روز وزیرِ اعظم نریندر مودی کے حلقے اترپردیش کے وارانسی اور ریاست پنجاب کی تمام 13 نشستوں پر بھی پولنگ ہوگی جہاں عام آدمی پارٹی کی حکومت ہے۔

ووٹنگ کے تمام سات مراحل مکمل ہونے کے بعد چار جون کو ووٹوں کی گنتی اور نتائج کا اعلان ہوگا۔

انتخابی نتائج سے متعلق اس وقت دو سرکردہ تجزیہ کاروں پرشانت کشور اور یوگیندر یادو کی آرا بھارتی میڈیا میں چھائی ہوئی ہیں۔ سیاسی و صحافتی حلقوں میں دونوں کی رائے کو کافی اہمیت حاصل ہے۔

پرشانت کشور پول اسٹرٹیجسٹ یعنی انتخابی حکمتِ عملی کے ماہر سمجھے جاتے ہیں اور وہ وزیرِ اعظم نریندر مودی، اپوزیشن رہنما راہل گاندھی، ممتا بنرجی اور نتیش کمار کے لیے الگ الگ مواقع پر انتخابی اسٹرٹیجی مرتب کرتے رہے ہیں۔

انہوں نے نشریاتی ادارے ’این ڈی ٹی وی‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ بی جے پی حکومت کے خلاف نہ تو بہت زیادہ عدم اطمینان ہے اور نہ ہی کسی متبادل حکومت کے قیام کا مطالبہ۔ لہٰذا اس کا امکان ہے کہ نریندر مودی کی قیادت میں بی جے پی تیسری بار انتخابات میں کامیاب ہو گی اور اسے 2019 میں ملنے والی 303 سے بھی زیادہ نشستیں حاصل ہو سکتی ہیں۔

انہوں نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ سب سے بڑی اپوزیشن پارٹی کانگریس 100 سے زیادہ نشستیں حاصل نہیں کر پائے گی۔ ان کی پشین گوئی پر سیاسی و صحافتی حلقوں میں کافی گفتگو ہو رہی ہے۔

سینئر تجزیہ کار یوگیندر یادو بھی انتخابات کے پہلے مرحلے کے بعد سے ہی ہر مرحلے کا تجزیہ کرتے رہے ہیں اور وہ وزیرِ اعظم مودی کے 'چار سو پار' کے نعرے کو غیر حقیقی و غیر عملی قرار دیتے ہیں۔

ان کا خیال ہے کہ بی جے پی سادہ اکثریت سے دور رہے گی اور اسے 250 سے کم نشستوں پر لایا جا سکتا ہے۔

'مودی تیسری بار حکومت بنانے کے لیے ووٹ مانگ رہے ہیں'

بھارت کے ایوانِ زیریں (لوک سبھا) میں مجموعی نشستوں کی تعداد 543 ہے اور ایوان میں سادہ اکثریت اور حکومت سازی کے لیے 272 سیٹوں کی ضرورت ہوتی ہے۔

یوگیندر یادو کے مطابق بی جے پی کو 240 سے 260 اور اس کی حلیف جماعتوں کو 35 سے 45 نشستیں مل سکتی ہیں۔ جب کہ کانگریس کو 50 سے 100 کے درمیان اور اس کی حلیف جماعتوں کو 120 سے 135 کے درمیان نشستیں ملیں گی۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بعض تجزیہ کاروں نے معلق پارلیمان کا امکان بھی ظاہر کیا ہے۔ جب کہ نیوز چینلوں پر ہونے والی ڈبیٹ میں بی جے پی کی حکومت کے قیام کی قیاس آرائی کی جا رہی ہے۔

سینئر تجزیہ کار اور صحافی اوما کانت لکھیڑہ کا کہنا ہے کہ وزیرِ اعظم نریندر مودی تیسری بار حکومت بنانے کے لیے ووٹ مانگ رہے ہیں۔ لیکن پنڈت جواہر لعل نہرو کے علاوہ کوئی اور سیاست داں مسلسل تیسری بار وزیر اعظم نہیں بنا ہے۔ اگر مودی انتخابی معرکہ سر کر لیتے ہیں تو یہ کہنا پڑے گا کہ وہ نہرو کے بعد سب سے زیادہ مقبول لیڈر ہیں۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 2019 کے انتخابات میں ریاست اترپردیش، بہار اور مہاراشٹر میں بی جے پی کو بہت زیادہ نشستیں ملی تھیں لیکن اس بار ان ریاستوں میں اس کی سیٹیں کم ہو رہی ہیں جب کہ اپوزیشن اتحاد ’انڈیا‘ خاص طور پر اترپردیش میں بہت مضبوط ہو گیا ہے۔

ان کے مطابق سرویز میں سامنے آنے والی عوامی آرا کو دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ اس بار صورتِ حال غیر یقینی ہے جس کی وجہ سے معلق پارلیمان وجود میں آسکتی ہے۔ لیکن اگر ایسا ہوا تو حکومت سازی میں علاقائی جماعتوں کا کردار اہم ہو جائے گا جو کسی بھی اتحاد میں شامل نہیں ہیں۔

پہلے مرحلے سے ہی انتخابی مہم پر نظر رکھنے والے سینئر صحافی اور روزنامہ ’دینک بھاسکر‘ کے پولیٹیکل ایڈیٹر کے پی ملک بھی معلق پارلیمان کی قیاس آرائی کر رہے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ پہلے مرحلے سے چھٹے مرحلے تک آتے آتے بی جے پی پچھڑتی چلی گئی اور ایسا نہیں لگتا کہ بی جے پی اکثریت حاصل کر پائے گی۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کے پی ملک نے کہا کہ بی جے پی کو 200 سے 225 نشستیں مل سکتی ہیں اور اپنے بعض پرانے حلیفوں کو بھی ساتھ ملا کر وہ سادہ اکثریت حاصل نہیں کر سکے گی۔

انہوں نے کہا کہ اگر بی جے پی حکومت بنانے کی کوشش کرے گی تو پھر اسے اپنے پرانے حلیفوں جیسے ممتا بنرجی، شیو سینا اور بیجو جنتا دل وغیرہ کو ساتھ ملانا ہو گا۔ اگر ایسا ہوا اور حکومت قائم ہوئی تو نریندر مودی کی حکومت سابق وزیرِ اعظم اٹل بہاری واجپائی کی حکومت جیسی ہوگی۔

بھارتی انتخابات: کیا جاننا ضروری ہے؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:26 0:00

ان کے خیال میں اگر بی جے پی 200 سے کم نشستیں حاصل کر سکی تو اپوزیشن اتحاد کی حکومت قائم ہو سکتی ہے لیکن اس کے لیے کانگریس کو 150 نشستیں ملنا ضروری ہے۔ کیوں کہ کانگریس 150 سے زیادہ نشستیں ملنے کی صورت میں ہی حکومت سازی کی کوشش کرے گی۔

سروے ایجنسیوں سے وابستہ مبصرین کا خیال ہے کہ بھارت میں آئندہ حکومت بی جے پی کی ہی ہو گی اور وزارتِ عظمیٰ نریندر مودی ہی سنبھالیں گے۔

سروے کرنے والے سرکردہ ادارے سینٹر فار دی اسٹڈی آف ڈیولپنگ سوسائٹی (سی ایس ڈی ایس) کے سنجے کمار کا کہنا ہے کہ بی جے پی نے انتخابی مہم کے دوران رام مندر، دفعہ 370 کا خاتمہ اور اس جیسے دیگر ایشوز اٹھائے لیکن ان مسائل نے الیکشن پر کوئی اثر نہیں دکھایا اور حزبِ اختلاف نے جن ایشوز کو اٹھایا وہ حاوی رہے۔

بی جے پی کے حامی تصور کیے جانے والے سینئر تجزیہ کار ہرش وردھن ترپاٹھی کے مطابق اس الیکشن میں بی جے پی کے حق میں خاموش لہر ہے اور اسے 375 سے 400 اور اپوزیشن اتحاد کو 100 سے 115 تک نشستیں مل سکتی ہیں۔

لیکن اوما کانت لکھیڑہ اسے نہیں مانتے۔ وہ کہتے ہیں کہ بی جے پی کو اور خاص طور پر وزیر اعظم مودی کو بھی شکست کا احساس ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مودی کی تقریروں کے معیار میں کافی گراوٹ آئی ہے۔ ان کے متنازع بیانات پر کافی تنقید ہو رہی ہے۔

لیکن ان کے خیال میں وزیرِ اعظم کی ان تقریروں کا مقصد مذہب اور ذات برادری کی بنیاد پر عوام کو تقسیم کرنا اور ووٹ حاصل کرنا ہے۔ حالاں کہ بی جے پی اس قسم کے الزامات کی تردید کرتی ہے۔

سینئر تجزیہ کار پروفیسر ابھے کمار دوبے کہتے ہیں کہ بی جے پی کی حکومت کا قیام اور مودی کا وزیرِ اعظم بننا دو الگ الگ باتیں ہیں۔ اگر بی جے پی 220 سے 230 نشستیں حاصل کر لیتی ہے تو اسے حکومت سازی سے روکنا ناممکن ہوگا۔ اس صورت میں اس کی حکومت تو بن جائے گی لیکن نریندر مودی وزیرِ اعظم نہیں ہوں گے۔

انھوں نے ایک یوٹیوب چینل کے پروگرام میں بات کرتے ہوئے کہا کہ اگر بی جے پی 250 تک سیٹیں جیت لیتی ہے تو اس صورت میں بی جے پی کی حکومت بھی بنے گی اور مودی وزیر اعظم بھی ہوں گے۔ ان کے بقول اس صورت میں مودی اور امت شاہ اتنے ارکان پارلیمان کو اپنے خیمے میں لے آئیں گے کہ حکومت بن جائے۔

مبصرین کا خیال ہے کہ وزیرِ اعظم مودی کی جانب سے مسلمانوں کو درانداز کہنے یا زیادہ بچے پیدا کرنے والے بیانات کو عوام نے پسند نہیں کیا۔ لیکن وہ انتخابی مہم کے دوران تواتر کے ساتھ اس طرح کے متنازع بیانات دیتے رہے ہیں۔ تاہم وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ وہ "ہندو مسلمان نہیں کرتے۔"

انہوں نے چنڈی گڑھ کے ایک انگریزی اخبار ’دی ٹریبیون‘ کو حالیہ انٹرویو میں کہا کہ وہ مسلم مخالف نہیں ہیں۔ البتہ کانگریس کی مسلم ووٹ بینک کی سیاست یا مسلمانوں کے ووٹ حاصل کرنے کی سیاست کے خلاف ہیں۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

فورم

XS
SM
MD
LG