رسائی کے لنکس

ایس سی او سمٹ: 'مودی کا چینی صدر اور شہباز شریف سے مسکراہٹوں کا تبادلہ ہی کافی ہو گا'


شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے سربراہی اجلاس کے دوران عالمی تنازعات پر مختلف آرا رکھنے والے رہنماؤں کے آمنے سامنے آنے اور حلیف ملکوں کے سربراہان کی شیڈول ملاقاتیں توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہیں۔ ایسے میں سب کی نظریں بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی، چینی صدر شی جن پنگ اور پاکستانی وزیرِ اعظم شہباز شریف پر بھی ہوں گی، جو اجلاس کے دوران ایک ہی چھت تلے موجود ہوں گے۔

بھارتی حکام کا کہنا ہے کہ وزیرِ اعظم مودی بھارت کے دیرینہ حلیف روس کے صدر ولادیمیر پوٹن سے ملاقات کریں گے، تاہم چینی صدر شی جن پنگ اور پاکستانی وزیرِ اعظم شہباز شریف کے ساتھ اُن کی ملاقات کا امکان کم ہے۔

شنگھائی تعاون تنظیم کا سربراہی اجلاس جمعرات کو ازبکستان کے شہر سمر قند میں شروع ہوا۔

بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ وزیرِ اعظم مودی کا اگر شی جن پنگ اور شہباز شریف سے آمنا سامنا بھی ہوتا ہے تو کرونا کی وجہ سے شاید وہ مصافحہ تو نہ کریں، لیکن مسکراہٹوں کا تبادلہ بھی ایک پیش رفت ہو گی۔

بھارت کے سیکریٹری خارجہ ونے کواترا نے جمعرات کو ایک نیوز کانفرنس میں اس کی تصدیق کی کہ وزیر اعظم مودی دوطرفہ مذاکرات کریں گے۔ لیکن اُنہوں نے شی جن پنگ سے ملاقات کے سلسلے میں کیے جانے والے سوال کا جواب نہیں دیا۔ البتہ ایسی قیاس آرائیاں ہیں کہ مودی ترکیہ کے صدر رجب طیب ایردوان سے بھی ملاقات کر سکتے ہیں۔

روس کے سرکاری خبررساں ادارے' تاس' نے روسی صدر کے معاون یوری اوشاکوف کے حوالے سے کہا ہے کہ صدر پوٹن وزیر اعظم مودی کے ساتھ عالمی ایجنڈے پر بات کریں گے۔ اس کے علاوہ دونوں کے درمیان اسٹریٹجک استحکام، ایشیا پیسفک کی صورت حال، اقوام متحدہ اور گروپ 20 سمیت دیگر عالمی فورمز پر باہمی تعاون، باہمی تجارت اور اقتصادی تعاون سمیت متعدد امور پر بھی مذاکرات ہوں گے۔

بھارتی میڈیا کے مطابق پوٹن اور دیگر رہنماؤں سے مودی کی بات چیت اس لحاظ سے کافی اہم مانی جا رہی ہے کہ بھارت دسمبر میں سلامتی کونسل کی صدارت اور 2023 میں ایس سی او کی قیادت کرے گااور گروپ 20 کا چیئرمین ہوگا۔


اس سے قبل گزشتہ سال دسمبر میں اس وقت مودی اور پوٹن میں مذاکرات ہوئے تھے جب پوٹن نے نئی دہلی کا دورہ کیا تھا۔ اس کے بعد رواں سال کے جولائی میں دونوں نے اس ملاقات میں ہونے والے فیصلوں پر عمل درآمد کا جائزہ لیا تھا۔

'مصافحہ نہ بھی ہو مسکراہٹوں کا تبادلہ ہی کافی ہو گا'

بھارتی میڈیا میں یہ سوال پوچھا جا رہا ہے کہ کیا وزیر اعظم مودی اور چین کے صدر شی جن پنگ میں بھی ملاقات ہوگی؟۔ گوکہ بھارت اور چین میں سے کسی نے بھی اس سلسلے میں کوئی بیان نہیں دیا ہے تاہم سمٹ سے عین قبل لداخ میں لائن آف ایکچوئل کنٹرول (ایل اے سی) پر بعض متنازع مقامات سے دونوں ملکوں کی افواج کی واپسی کے عمل سے مثبت اشارہ ملتا ہے۔

سینئر تجزیہ کار نیلوفر سہروردی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ سفارت کاری میں باڈی لینگوئج کی بھی بڑی اہمیت ہوتی ہے اور اگر یہ دونوں رہنما ملاقات نہیں بھی کرتے ہیں اور ایک دوسرے کی طرف صرف مسکرا کر دیکھ لیتے ہیں تو بھی وہ ایک بڑا واقعہ ہوگا۔ یہی بات شہباز شریف کے سلسلے میں بھی لاگو ہوتی ہے۔ اس پر سب کی نگاہیں رہیں گی کہ کیا مودی شی جن پنگ اور شہباز شریف سے ہاتھ ملائیں گے۔


مبصرین کے مطابق ایس سی او میں روس اور چین کی موجودگی اور اب اس میں ایران کی بھی شمولیت کی وجہ سے مغرب ایس سی او کو اپنے خلاف ایک بلاک سمجھتا ہے لہٰذا عالمی رہنماؤں سے مودی کی ملاقات پر مغرب کی نظریں رہیں گی۔ اس وقت کی عالمی صورتِ حال کے پیشِ نظر بھارت کی اہمیت بڑھ گئی ہے۔ روس یوکرین جنگ کے معاملے میں اس نے کسی فریق کی حمایت یا مخالفت نہیں کی بلکہ غیر جانب دارانہ مؤقف اختیارکیا اور بات چیت سے مسئلے کو حل کرنے پر زور دیا۔

ازبکستان میں بھارت کے سفیر منیش پربھات نے بھارتی نشریاتی ادارے 'انڈیا ٹوڈے' سے بات کرتے ہوئے مغرب کے خدشات کو دور کرنے کی کوشش کی۔ انہوں نے کہا کہ اس معاملے میں بھارت کا مؤقف واضح ہے اور ایس سی او پلیٹ فارم پر بھی یہ بات کہی گئی ہے کہ ایس سی او نہ تو کسی ملک کے خلاف ہے اور نہ ہی ملکوں پر مشتمل کسی بلاک کے خلاف۔ اس کا مقصد تعمیری تعاون اور دنیا میں امن و استحکام کا قیام ہے۔

'مغربی ملکوں کی نظریں ایس سی او اجلاس پر ہوں گی'

بین الاقوامی امور کے ماہر رہیس سنگھ کہتے ہیں کہ اس وقت عالمی نظام اور بین الاقوامی سفارت کاری کے حالات غیر یقینی ہیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ مودی اور پوٹن کی ملاقات میں انڈو پیسفک کی صورت حال، مشرق وسطیٰ اور یوریشیائی خطے کے حالات، باہمی تجارت اور اقتصادی تعاون جیسے امور پر جامع تبادلۂ خیال ہوگا۔

نیلوفر سہروردی کہتی ہیں کہ وزیرِ اعظم مودی کی کس سے ملاقات ہوگی کس سے نہیں ابھی یہ واضح نہیں ہے۔ بھارتی وزارتِ خارجہ نے تاحال اس بارے میں کوئی بیان نہیں دیا ہے۔ لیکن اس بات پر توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ ایس سی او میں وہ ممالک شامل ہیں جن سے امریکہ کے تعلقات بہت اچھے نہیں ہیں خاص طور پر روس اور چین کے ساتھ۔


وہ یہاں تک کہتی ہیں کہ اس وقت نصف دنیا یوکرین پر روس کے حملے کے خلاف ہے، ایسے میں مودی اور پوٹن کے درمیان مذاکرات پر امریکہ اور مغرب کی نگاہیں رہیں گی۔ لیکن اس بات کو بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا کہ اس وقت امریکہ کی جو سفارتی پوزیشن ہے اس کی وجہ سے اس کے نزدیک بھارت کی کافی اہمیت ہے ۔

مبصرین کے مطابق بھارت اور روس کے درمیان جو تاریخی رشتے رہے ہیں وہ اب بھی قائم ہیں۔ روس بھی چاہتا ہے کہ باہمی تعلقات مزید مضبوط ہوں۔

رہیس سنگھ کہتے ہیں کہ ابھی چند روز قبل روس نے بھارت کو خام تیل کی قیمت میں مزید رعایت کی پیش کش کی ہے اور یہ تجارت روبل اور روپے میں ہوگی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ روس ہر حال میں چاہتا ہے کہ بھارت اس کا ساتھ دیتا رہے۔

یاد رہے کہ رواں سال کے نصف اول میں بھارت اور روس کی باہمی تجارت 11.5 ارب ڈالر تک پہنچ گئی ہے یعنی اس میں 120 فی صد کا اضافہ ہوا ہے۔

دونوں مبصرین اس بات پر متفق ہیں کہ بھارت روس رشتوں میں استحکام یا ان میں مزید قربت کا بھارت امریکہ رشتوں پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ وہ امریکہ کی جانب سے پاکستان کو ایف۔16 طیاروں کی مرمت کے لیے 45 کروڑ ڈالر کے معاہدے کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ جب امریکہ یہ اشارہ دے رہا ہے کہ امریکہ پاکستان رشتوں کا بھارت کے ساتھ اس کے رشتوں پر کوئی اثر نہیں پڑے گا تو بھارت روس رشتوں کا بھارت امریکہ رشتوں پر کیسے اثر پڑ سکتا ہے۔

'سب کی نظریں مودی کی عالمی رہنماؤں سے ملاقاتوں پر ہوں گی'

نیلوفر سہروردی کے مطابق بھارت اور امریکہ دونوں کو ایک دوسرے کی ضرورت ہے۔ بھارت امریکہ سے بھی ہتھیار خریدتا ہے اور اسرائیل سے بھی اور روس سے بھی اور روس سے تو اس کے تاریخی رشتے ہیں۔ وہ اس سے بھی متفق ہیں کہ ایس سی او میں بھارت کافی اہم پوزیشن کا مالک ہے۔

اُن کے بقول امریکہ کوئی ایسا قدم نہیں اٹھانا چاہے گا کہ بھارت اور اس کے درمیان کوئی بدمزگی پیدا ہو لیکن وہ یہ بھی کہتی ہیں کہ یہ بھی دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ عالمی رہنماؤں سے مودی کی ملاقات کو میڈیا کیسے دیکھتا اور پیش کرتا ہے۔

رہیس سنگھ کہتے ہیں جب کوئی ملک کسی دوسرے ملک سے کوئی معاہدہ کرتا ہے تو وہ قومی مفادات کے تحت کرتا ہے، کسی دوسرے ملک کو ہدف بنا کر معاہدہ نہیں کرتا۔ اسی طرح بھارت بھی اپنے قومی مفادات کے پیش نظر دوسرے ملکوں سے تعلقات قائم کرتا ہے۔ ان کے خیال میں وزیر اعظم مودی بھارت مرکوز پالیسی کے تحت عالمی رہنماوں سے مذاکرات کریں گے۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG