پاکستان کے وزیرِاعظم شہباز شریف شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے سربراہانِ مملکت کے سالانہ اجلاس میں شرکت کے لیے ازبکستان پہنچ گئے ہیں۔
شہباز شریف اس دو روزہ اجلاس میں شرکت کے ساتھ ساتھ تاجکستان کے صدر امام علی رحمٰن اور ازبکستان کے صدر شوکت مرزئیوف سے علیحدہ علیحدہ ملاقاتیں کریں گے۔ اس کے علاوہ وہ روس کے صدر ولادیمیر پوٹن سے ملاقات کریں گے۔
شہباز شریف ترکیہ کے صدر رجب طیب ایردوان، ایرانی صدر ابراہیم رئیسی، بیلا روس کے صدر الیگزینڈر گریگوری اور دیگر حکام سے ملاقات کریں گے جب کہ سربراہانِ مملکت کے اعزاز میں دیے گئے عشائیے میں بھی شرکت کریں گے۔
خیال رہے کہ شنگھائی تعاون تنظیم کا دو روزہ سربراہ اجلاس 15 اور 16 ستمبر کو ازبکستان کے شہر ثمر قند میں منعقد ہو رہا ہے جس میں تنظیم کے رکن اور مبصر ممالک کے سربراہانِ مملکت اور حکومتی ارکان بھی شرکت کر رہے ہیں۔اس موقع پر شنگھائی تعاون تنظیم کی رکن ممالک کی اعلیٰ قیادت کے درمیان ہونے والی ملاقاتوں میں علاقائی اور عالمی امور زیر بحث آنے کی توقع ہے۔
پاکستان کے دفتر خارجہ کے بدھ کو جاری ایک بیا ن کے مطابق تنظیم کے اجلاس میں آب و ہوا کی تبدیلی، غذائی تحفظ اور دیگر امور ایجنڈے میں شامل ہیں۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ کانفرنس کے موقع پر عالمی رہنماؤں خاص طور چین اور روس کے صدور کے درمیان ہونے والی ملاقات توجہ کا محور رہے گی، جس میں خطے میں ہونے والی تبدیلیوں ، علاقائی ، عالمی معاملات بشمول روس اور یوکرین جنگ بھی زیر بحث آئیں گے۔
اس دو روزہ اجلاس میں بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی بھی شرکت کر رہے ہیں۔ لیکن پاکستان اور بھارت کے وزرائے اعظم کے درمیان باضابطہ طور پر کوئی ملاقات طے نہیں ہے۔
یہ اجلاس ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب گزشتہ دو برسوں کے دوران دنیا کی جیو پولیٹیکل (جغرافیائی سیاسی) صورتِ حال میں کئی تبدیلیاں رونما ہو چکی ہیں۔رواں سال فروری میں روس اور یوکرین میں فوجی مداخلت کی وجہ سے روس اور امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک کے ساتھ مخاصمت اور تناؤ میں اضافہ ہوا ہے جب کہ چین اور امریکہ کے درمیان بھی سرد مہری بڑھی ہے۔اس صورتِ حال میں ماہرین ازبکستان میں منعقد ہونےاس اجلاس کو اہم قرار دے رہے ہیں۔
بین الاقوامی امور کے تجزیہ کار نجمرفیق کہتے ہیں کہ گزشتہ سال اگست میں افغانستان سے امریکہ کے انخلا کے بعد افغانستان کی معیشت کو بہتر کرنے کا چیلنج کابل کے لیے بدستور موجود ہے۔
دوسری جانب روس اور یوکرین کی جنگ بھی طویل ہو رہی ہے اور کرونا وائرس کی عالمی وبا کی وجہ سے عالمی اقتصادی حالات مخدوش ہو چکے ہیں۔ اس لیے نجم رفیق کہتے ہیں کہ خطے کے معاشی اور سیکیورٹی حالات ایس سی او کے رکن ممالک کی توجہ کا مرکز رہیں گے۔
ماسکو میں پاکستان کے سابق سفیر شاہد امین کہتے ہیں کہ شنگھائی تعاون تنظم کی رکنیت پاکستان کے لیے اہم ہے۔ اس تنظیم کے ایجنڈے میں شامل معاملات پاکستان کے لیے اہم ہیں، جن میں انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خلاف تعاون پاکستان کے لیے بھی اہم ہے۔ان کے بقول اجلاس کے موقع پر وزیر اعظم شہباز شریف کی دیگر رہنماؤں کے ساتھ ہونے والی ملاقاتیں اہم ہوں گی۔
اگرچہ شہباز شریف اور نریندر مودی کے درمیان کوئی باضابطہ ملاقات طے نہیں ہےلیکنشاہد امین کہتے ہیں کہ اس موقع پر دونوں رہنماؤں کے درمیان غیر رسمی مختصر ملاقات کو خارج ازامکان نہیں کیا جا سکتا ہے۔
تجزیہ کار نجم رفیق کہتے ہیں کوئی بھی ایسی اتفاقی ملاقات پاکستان اور بھارت کے درمیان تناؤ اور خطے میں امن کی راہ ہموار کرنے کے لیے اہم ہوگی۔
ادھر تجزیہ کار اجلاس کے موقع پر صدر ولادیمیر پوٹن اور چین کے صدر شی جن پنگ کے درمیان ملاقات کو بھی اہم قرار دے رہے ہیں۔
شاہد امین کہتے ہیں کہ یوکرین کی جنگ کے بعد عالمی تعلقات میں تبدیلی آئی ہے اور روس کے خلاف امریکہ اور مغربی ممالک کی صف آرائی ہوئی ہے لیکن دوسر ی جانب بظاہر چین روس کے ساتھ ہے۔البتہ ان کےبقول شنگھائی تعاون تنظیم کا سرد جنگ کے دور کی طرح مغرب مخالف بلاک بننے کا امکان کم ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگرچہ امریکہ کی مخالفت میں روس اور چین قریب آ گئے ہیں لیکن دوسری جانب بھارت کے امریکہ کے ساتھ انتہائی خصوصی تعلقات ہیں جب کہ بھارت کے چین کے ساتھ بھی سرحدی امور کے علاوہ کئی دیگر معاملات پر اختلافات ہیں۔
ان کے بقول لہٰذا چین اور روس کی طرف سے امریکہ مخالف کیمپ میں دیگر ممالک کے شامل ہونے کا امکان نہیں ہے۔
نجم رفیق کہتے ہیں کہ بلاک سیاست تو بہت عرصے سے چل رہی ہے ۔ ظاہر ہے چین اور روس ایک طرف ہیں اور امریکہ اور ا س کے مغربی اتحادی ممالک ایک طرف ہیں۔
انہوں نے کہا کہ گو کہ ایس سی او کا مغرب کے خلاف مخاصمت میں بطور بلاک ایک ساتھ رہنا ممکن نہیں ہے کیوں کہ تنظیم کا کوئی بھی رکن نہیں چاہے گا کہ عالمی امن کو خراب کیا جائے یا دنیا ایک نئی سرد جنگ کی طرف جائے۔
نجم رفیق کے مطابق ایس سی او کا بنیادی مقصد انسداد دہشت گردی اور خطے میں ایس سی ا و کے رکن ممالک کے درمیان اقتصادی تعاون اور تجارت کو فروغ دیناہے۔لیکن ایسی سی او ممالک کے درمیان اقتصادی تعاون اور رابطوں کو فروغ دینے کے حوالے سے کوئی بڑی پیش رفت ہونا ابھی باقی ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ تنظیم کے رکن ممالک کے درمیان انسداد دہشت گردی کے لیے باہمی تعاون اور میکانزم میں قابلِ ذکر پیش رفت ہوئی ہے اور رکن ممالک کے درمیان انسداد دہشت گردی کے مشترکہ مشقوں کا بھی انعقاد ہوتا رہتا ہے۔
علاوہ ازیں اس بات کی بھی توقع کی جارہی ہے کہ ایران بھی مستقبل میں ایس سی او کا مستقل رکن بن جائے گا جو ایران کے لیے سفارتی طور پر اہم ہوگا ۔لیکن شاہد امین کہتے ہیں کہ ایران پر عائد تعزیرات اور اقتصادی مجبوریوں کی وجہ سے فی الحال ایران کا عالمی سیاست میں کردار نہایت ہی محدود ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایران کے روس اور چین کے ساتھ نہایت قریبی تعلقات کے باوجود وہ اس وقت تک علاقائی طور پرفعال نہیں ہو سکے گا جب تک اس پر تعزیرات عائد ہیں۔