سہیل انجم
وزیر اعظم نریندر مودی یوں تو تین ملکوں پرتگال، امریکہ اور نیدر لینڈ کے دورے پر ہیں لیکن ان کے اس چار روزہ دورے میں سب کی نگاہیں 26 جون کو واشنگٹن میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ان کی ملاقات پر مرکوز ہیں۔
اپنے دورے سے قبل انہوں نے ٹویٹر پر کہا کہ ”میں امریکی صدر سے وسیع تر تبادلہ خیال کا منتظر ہوں۔ میرے دورے کا مقصد بھارت امریکہ رشتے کو مضبوط کرنا ہے۔ اس سے دونوں ملکوں اور دنیا کو فائدہ ہوگا“۔
ان کے دورے سے قبل ٹرمپ انتظامیہ نے ان رپورٹوں کو مسترد کر دیا کہ امریکہ بھارت کو نظرانداز کر رہا ہے۔ایک سینئر عہدے دار نے واشنگٹن میں کہا کہ ”صدر ٹرمپ اس بات کو محسوس کرتے ہیں کہ بھارت دنیا میں اچھائی کی طاقت کے طور پر رہا ہے اور اس کے ساتھ تعلقات کی اہمیت ہے“۔
وہائٹ ہاؤس کے پریس سیکرٹری شان سپائسر نے کہا کہ ”صدر ٹرمپ اور وزیر اعظم مودی جب ملاقات کریں گے تو ان کے درمیان وسیع تر تبادلہ خیال ہوگا“۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا بات چیت کے دوران ایچ ون بی ویزا کا معاملہ بھی اٹھے گا تو انہوں نے کہا کہ ”امریکہ کی جانب سے اسے اٹھانے جانے کا امکان کم ہے۔ لیکن اگر بھارت اسے اٹھاتا ہے تو امریکہ اس کے لیے تیار ہے“۔
امریکہ میں بھارتی سفیر نوتیج سرنا نے کہا کہ ”دونوں راہنماؤں کی براہ راست ملاقات انہیں عالمی مفاد کے معاملات اور باہمی امور پر ایک دوسرے کے خیالات جاننے کا ایک موقع فراہم کرے گی“۔
اسی درمیان بھارت کے خارجہ سیکرٹری ایس جے شنکر نے واشنگٹن میں امریکہ کے وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن سے ملاقات کی۔ انہوں نے امریکی انتظامیہ کے دیگر عہدے داروں سے بھی ملاقات کی ہے۔
عالمی امور کے ماہر اور ایک سینئر تجزیہ کار قمر آغا نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ”دونوں راہنماؤں کی ملاقات سے باہمی رشتوں میں اور استحکام آئے گا۔ بعض معاملات پر دونوں میں اختلافات ہیں جن کو دور کر لیا جائے گا۔ امریکہ بھارت کا ایک معتمد حلیف ہے اور اس کے ساتھ بھارت کے اسٹریٹجک تعلقات ہیں۔ بھارت اس سے ہتھیار بھی خریدتا ہے۔ دونوں کی باہمی تجارت ایک سو بلین ڈالر کے لگ بھگ ہے اور اس میں روز بہ روز اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ دورہ دونوں ملکوں کے لیے بہت اہم ہے“۔
دریں اثنا ٹرمپ انتظامیہ نے بھارت کو دو بلین ڈالر کے جاسوسی ڈرون فروخت کرنے کی اجازت دے دی ہے جسے امریکی کانگریس سے منظور کرانا ہوگا۔ بھارت نے گزشتہ سال 22 گارجین MQM-9B بغیر پائلٹ طیاروں کے حصول کے لیے درخواست دی تھی۔
ٹرمپ انتظامیہ کے ایک سینئر عہدے دار نے کہا کہ ”بھارت کو ہتھیار فروخت کرنے سے اس کے ہمسایہ حریف پاکستان کو کوئی خطرہ نہیں ہوگا۔ دونوں ملکوں کو چاہیے کہ وہ براہ راست مذاکرات کریں اور تعلقات کو معمول پر لائیں“۔
نریندر مودی اتوار کی شب میں واشنگٹن پہنچیں گے۔ پیر کی دوپہر سے دونوں راہنما مختلف اجلاسوں میں شرکت کریں گے۔ وہ براہ راست اور وفود سطح کے مذاکرات کریں گے اور ایک پریس بیان جاری کریں گے۔
ملاقاتوں کے دوران امریکہ کے نائب صدر، قومی سلامتی کے مشیر اور وزارئے دفاع، تجارت اور مالیات بھی موجود رہیں گے۔
پریس بیان جاری کرنے کے بعد دونوں استقبالیہ تقریب میں جائیں گے اور آخر میں عشائیہ میں شرکت کریں گے۔ نریندر مودی ایسے پہلے غیر ملکی راہنما ہیں جن کے اعزاز میں ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے عشائیہ کا اہتمام کیا جا رہا ہے۔