پاکستان میں حالیہ بارشوں میں سندھ میں موجود عالمی شہرت یافتہ آثارِ قدیمہ ’موئن جو دڑو‘ کو بھی شدید نقصان پہنچا ہے۔ حکام کے مطابق مسلسل بارش کے باعث آثارِ قدیمہ کی گلیوں، فرش اور سیوریج کی نالیوں کو کہیں جزوی، تو کہیں مکمل نقصان پہنچا ہے۔
محکمۂ آثارِ قدیمہ سندھ کے ڈائریکٹر عبد الفتح شیخ کا وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ موئن جو دڑو کی تاریخ میں اتنی بارش کبھی بھی دیکھنے میں نہیں آئی، آٹھ سے 10 دن مسلسل بارش کے باعث 1400 ملی میٹر بارش ریکارڈ کی گئی، جس کے باعث آثارِ قدیمہ کو شدید نقصان پہنچا ہے۔
ان کا مزید کہنا ہے کہ بارش کے دوران آثارِ قدیمہ کو بچانے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر کام شروع کیا گیا۔
واضح رہے کہ پاکستان میں حالیہ بارش کے باعث تاحال 1300 سے زائد افراد ہلاک جب کہ لاکھوں بے گھر ہو چکے ہیں۔ دریائے سندھ کے سنگم پر واقع 4500 سال قدیم ثقافتی ورثہ اگرچہ سیلاب کے پانی سے براہِ راست تو متاثر نہیں ہوا البتہ ان قدیم آثار میں پانی کے مسلسل کھڑے رہنے کے باعث سطح متاثر ہوئی ہے۔
عبد الفتح شیخ کہتے ہیں کہ موئن جو دڑو لاڑکانہ شہر میں واقع ہے۔ شہر کی سڑکوں پر چار دن تک تین سے چار فٹ تک پانی کھڑا تھا لیکن موئن جو دڑو میں سرکاری اہلکاروں نے ایک فٹ سے زائد پانی کھڑا نہیں رہنے دیا۔
ان کے مطابق گزشتہ تین ہفتوں سے 70 افراد مسلسل کام کر رہے ہیں۔ پانی نکالنے کے لیے روایتی طریقوں کے ساتھ ساتھ چھوٹی اور بڑی مشینوں کا بھی سہارا لیا جا رہا ہے۔
ملک میں2010 میں آنے والے سیلاب کے باعث زمین میں پانی کی سطح بلند ہونے کے باعث بھی موئن جودڑو کے آثار کو نقصان پہنچا تھا۔ پانی کی سطح بلند ہونے کی وجہ سے زیرِ زمین نمکیات کی سطح بھی بلند ہوئی جس کے باعث آثار کی ساخت کمزور ہوئی۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق حالیہ بارشوں کے باعث 70 فی صد کھنڈرات کو نقصان پہنچا ۔ تاہم عبدالفتح شیخ اس سے اتفاق نہیں کرتے۔ ان کا کہنا ہے کہ مسلسل بارش سے ورثے پر کی گئی لپائی مکمل طور پرجھڑ چکی ہے۔
یاد رہے کہ موسمی حالات سے بچاؤ اور اصلی ساخت میں برقرار رکھنے کے آثارِ قدیمہ پر مٹی کی لپائی کا سہارا لیا جاتا ہے۔
عبد الفتح شیخ کا مزید کہنا تھا کہ ان کا محکمہ یونیسکو کے ساتھ رابطے میں ہے۔ ابتدائی تحقیق کے لیے ان کی ایک ٹیم نے دورہ بھی کیا ہے۔
ان کے مطابق یونیسکو کی ٹیم نے نقصان کی بہت کم لاگت لگائی ہے۔ تاہم ان کی تحقیق کے مطابق ابتدائی طور پر اس نقصان کے ازالے کے لیے 10 کروڑ روپے درکار ہوں گے۔
انہوں نے بتایا کہ اس وقت انہیں ٹیکنیکل سپورٹ کے ساتھ کئی مزید چیلنجز کا بھی سامنا ہے۔ سائٹس کی تعمیر کے لیے اینٹ، خشک مٹی اور ریت کی اشد ضرورت ہے۔ علاقے میں ہر طرف پانی ہی پانی کھڑا ہے، جس کے باعث زیادہ مشکل کا سامنا ہے۔ اس کے علاوہ مٹی اور ریت کو رکھنے کے لیے خشک جگہ بھی دستیاب نہیں ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ موئن جو دڑو میں قائم بڑے تالابوں سے پانی کو نکال لیا گیا ہے تام بڑے اسٹوپا کی لپائی اتر گئی ہے۔ اس کے علاوہ تیز بارش کے سبب چند ایک دیواریں بھی گر گئی ہیں۔ ان کی پوری کوشش ہے کہ ان آثارِ قدیمہ کو محفوظ کیا جا سکے کیوں کہ یہ پاکستان کی شناخت کے ساتھ ساتھ ایک قدیم تہذیب بھی ہے۔