رسائی کے لنکس

کیا راہل گاندھی کا تمل ناڈو سے کشمیر تک پیدل مارچ پارٹی کی قسمت بدل سکے گا؟


فائل فوٹو
فائل فوٹو

بھارت میں حزبِ اختلاف کی سب سے بڑی جماعت کانگریس کے سینئر رہنما راہل گاندھی نے پارٹی میں نئی جان پھونکنے کے لیے جمعرات کو تمل ناڈو کے شہر کنیا کماری سے پیدل یاترا (مارچ) شروع کر دیا ہے۔ اسے ’بھارت جوڑو‘ مارچ کا نام دیا گیا ہے۔

یہ مارچ 12 ریاستوں سے گزرے گا اور 150 دن میں 3570 کلومیٹر کا سفر طے کرے گا۔ یہ مارچ اگلے سال فروری کے پہلے ہفتے میں بھارت کے زیر انتظام کشمیر پہنچ کر ختم ہو گا۔

کانگریس نے اس یاترا کو بھارت کی سیاست میں ایک نئے موڑ سے تعبیر کیا ہے۔ یاترا ایسے وقت شروع ہوئی ہے جب مرکز میں ایک طویل وقت تک برسراقتدار رہنے والی پارٹی ملکی سیاست میں اب تک کے سب سے برے دور سے گزر رہی ہے۔ وہ اس وقت صرف دو ریاستوں راجستھان اور چھتیس گڑھ میں برسراقتدار ہے۔ باقی ریاستوں میں تیسرے یا چوتھے نمبر پر ہے۔

پارٹی کے کئی سینئر رہنما جیسے کہ کپل سبل اور غلام نبی آزاد اور بہت سے کارکن پارٹی چھوڑ کر جا چکے ہیں۔ ایسے میں اس مارچ کو سیاسی، صحافتی اور عوامی حلقوں میں دلچسپی سے دیکھا جا رہا ہے۔ یاترا کے دوران ان کے ساتھ 180 افراد کا وفد بھی ہو گا۔

سینئر رہنما اور رکن پارلیمان ششی تھرور سمیت متعدد سینئر رہنماؤں نے اس امید کا اظہار کیا ہے کہ ا س یاترا سے جہاں ملکی سیاست کو تبدیل کرنے میں مدد ملے گی وہیں یہ یاترا پارٹی کو متحد کرنے میں بھی مؤثر ثابت ہوگی۔

راہل گاندھی نے یاترا شرو ع کرنے سے ایک روز قبل بدھ کو کنیا کماری میں اس کے افتتاحی پروگرام سے خطاب کرتے ہوئے حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اور راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) پر مذہب اور زبان کی بنیاد پر ملک کو تقسیم کرنے کا الزام لگایا۔


راہل گاندھی نے بدھ کو چنئی کے نزدیک سری پیرومبدور میں واقع اپنے والد اور سابق وزیر اعظم راجیو گاندھی کی یادگار پر پھول چڑھائے اور کہا کہ انہوں نے نفرت اور تقسیم کرنے والی سیاست کی وجہ سے اپنے والد کو کھو دیا۔ لیکن وہ ملک کو نفرت کی بھینٹ نہیں چڑھنے دیں گے۔ یاد رہے کہ راجیو گاندھی اسی مقام پر 21 مئی 1991 کو ایک سیاسی جلسے سے خطاب کے موقع پر خودکش حملے میں ہلاک ہوئے تھے۔

بی جے پی نے راہل گاندھی کی پیدل یاترا کو ’فریب‘ قرار دیا اور کہا کہ پارٹی پر گاندھی نہرو خاندان کے کنٹرول کو باقی رکھنے کے لیے یہ یاترا ضروری تھی۔ پارٹی کے سینئر رہنما روی شنکر پرساد نے بدھ کو نئی دہلی میں ایک نیوز کانفرنس میں کہا کہ راہل گاندھی تو اپنی پارٹی کو ہی نہیں جوڑ سکے۔ یہ یاترا ملک کو جوڑنے کے لیے نہیں بلکہ راہل کو ایک بار پھر لیڈر ثابت کرنے کی کوشش کے لیے کی جا رہی ہے۔

راہل گاندھی کی یہ یاترا شروع ہونے کے پہلے سے ہی میڈیا میں جگہ بنانے میں کامیاب ہوئی ہے اور بالخصوص نیوز ویب سائٹس اور سوشل میڈیا پر موضوع بحث بنی ہوئی ہے۔ اخبارات میں بھی اسے خاصی کوریج مل رہی ہے۔

مبصرین کا خیال ہے کہ اس یاترا سے کانگریس پارٹی کو کچھ سیاسی فائدہ ضرور پہنچ سکتا ہے۔

سینئر تجزیہ کار ہرویر سنگھ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ اگر کوئی پارٹی عوام سے کٹ جائے تو اس کا مستقبل خطرے میں پڑ جاتا ہے۔ کانگریس ایک عرصے سے عوام سے دور ہے۔ زمینی سطح پر اس کا کیڈر بہت کمزور اور بکھرا ہوا ہے۔ مقامی سطحوں پر اس کی شاخیں غیر فعال ہیں۔ بہت سے سینئر رہنما اور کارکن پارٹی چھوڑ کر جا چکے ہیں۔

ان کے خیال میں ان حالات میں راہل گاندھی کی یہ یاترا پارٹی میں کتنی جان ڈال سکتی ہے اس بارے میں ابھی کچھ کہنا مشکل ہے۔ ان کے مطابق یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ یاترا کے دوران عوام سے ان کا کتنا رابطہ ہوتا ہے اور وہ ان سے خود کو کتنا قریب کر پاتے ہیں۔


ان کا کہنا تھا کہ راہل گاندھی پیدل یاترا پر تو نکل گئے ہیں لیکن پارٹی کے اندر جو بد نظمی ہے اسے دور کرنے کی کوشش نہیں کی جاتی۔ جب تک پارٹی کے صدر کا مسئلہ حل نہیں ہوگا اور پارٹی رہنماوں کی شکایات دور نہیں کی جائیں گی، ایسی یاترائیں سیاسی طور پر کتنی مفید ثابت ہوں گی کہنا مشکل ہے۔

'پیدل مارچ پارٹی کارکنوں کو متحرک کرے گا'

ہرویر سنگھ کا یہ بھی کہنا تھا کہ ماضی میں کئی سیاسی مارچ ہوئے جنہوں نے بھارتی سیاست پر اثر ڈالا ہے اور ان کے حیرت انگیز نتائج بھی سامنے آئے ہیں۔ اگر راہل گاندھی کا یہ مارچ بھی بھارتی سیاست میں کوئی ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہوتا ہے تو یہ بڑا واقعہ ہوگا۔

لیکن پارٹی کے اندرونی ذرائع کے مطابق 2024 کے پارلیمانی انتخابات سے قبل راہل گاندھی کی یہ پیدل یاترا گراس روٹ لیول پر پارٹی کارکنوں میں ایک نیا جوش بھرنے میں معاون ثابت ہوگی۔ ان کا یہاں تک کہنا ہے کہ اس یاترا کے سلسلے میں پورے ملک میں کانگریسی کارکنوں میں ولولہ پیدا ہوا ہے۔ ان کے بقول یہ یاترا بھارتی سیاست میں ماسٹر اسٹروک ثابت ہوگی۔

ہرویر سنگھ کہتے ہیں کہ یہ پیدل یاترا کرناٹک، ہماچل پردیش اور مدھیہ پردیش سمیت بی جے پی اقتدار والی چھ ریاستوں سے گزرے گی اور ان ریاستوں میں بی جے پی سے کانگریس کا براہ راست مقابلہ ہے۔ وہاں جلد ہی اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں۔ کانگریس کے اقتدار والی ریاست راجستھان سے بھی یاترا گزرے گی اور کانگریس ریاست میں دوبارہ برسراقتدرا آنے کی کوشش کر رہی ہے۔

بھارت میں سیاسی ریلیوں کی تاریخ

خیال رہے کہ بھارت میں سیاسی ریلیوں کی ایک تاریخ رہی ہے۔ کچھ نے پیدل مارچ کیے تو کچھ نے گاڑیوں پر ریلیاں نکالیں، جن ریلیوں کو بہت زیادہ شہرت حاصل ہوئی ان میں سابق وزیر اعظم اور جنتا پارٹی کے صدر چندر شیکھر کی 1983 میں کی جانے والی کنیا کماری سے دہلی تک کی پیدل یاترا تھی۔

اسی طرح 1990 میں بی جے پی کے سینئر رہنما ایل کے ایڈوانی کی گجرات کے سومناتھ سے ایودھیا تک کی یاترا تھیں۔ اس کا مقصد ایودھیا میں رام مندر کی تحریک کے لیے ماحول سازگار کرنا تھا۔ ان کی یاترا کے دوران مختلف مقامات پر فرقہ وارانہ فسادات ہوئے تھے۔ جب یاترا بہار میں پہنچی تو اس وقت کے وزیر اعلیٰ لالو یادو نے 23 اکتوبر 1990 کو سمستی پور میں انہیں گرفتار کر لیا تھا۔ وہ جس بس سے یاترا کر رہے تھے اس کو ہندو مذہب کی ایک مقدس سواری رتھ کی شکل دی گئی تھی اور اس یاترا کے ایک اہم منتظم نریندر مودی تھے۔

بی جے پی کے سابق صدر ڈاکٹر مرلی منوہر جوشی کی دسمبر 1991 میں شروع کی جانے والی ایکتا یاترا بھی کافی مشہور ہوئی تھی جو سومناتھ سے شروع ہو کر سری نگر تک گئی تھی۔ انھوں نے یاترا کے اختتام پر 26 جنوری 1992 کو سری نگر کے لال چوک پر ترنگا لہرایا تھا۔ اس وقت بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں عسکریت پسندی عروج پر تھی۔ جوشی نے اپنی یاترا ڈی سی ایم ٹویوٹا وین سے کی تھی۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG