رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز نے بتایا ہے کہ گزشتہ ماہ ایران میں چار خواتین صحافیوں کو 'من گھڑت' الزامات پر گرفتار کیا گیا ہے جس کے بعد حکومت مخالف احتجاجی لہر کے دوران گرفتار کیے گئے اخباری نمائندوں کی تعداد بڑھ کر 12 ہو گئی ہے۔
پیرس میں قائم آزادی صحافت کے نگراں ادارے نے گزشتہ دو ہفتوں کے دوران تہران کے قید خانے میں چار معروف خاتون صحافیوں سے روا رکھے جانے والے برتاؤ کی مذمت کرتے ہوئے اسے 'غیر انسانی اور پست نوعیت کا رویہ' قرار دیا ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ صحافیوں کو زیر حراست رکھنا اور ان کے ساتھ غیر مناسب انداز سے پیش آنا صحافیوں کو ہراساں کرنے کے زمرے میں آتا ہے۔
صحافیوں کے ساتھ یہ برتاؤ تب سے جاری ہے جب پیٹرول کے نرخ میں اضافے پر نومبر میں حکومت مخالف احتجاج بھڑک اٹھا تھا۔
جلوہ جواہری، کاوی مزدری، فروغ سمیع اور احمد زادہ لگرادی ان اخباری نمائندوں میں شامل ہیں جنھیں 26 دسمبر کو گرفتار کیا گیا تھا۔ وہ شمالی شہر سومعہ سرا میں ایک اجتماع میں شریک تھے جس میں احتجاج کے دوران ہلاک ہوئے ایک شخص کو خراج عقیدت پیش کیا جارہا تھا۔
رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز کے مطابق ان چار خاتون صحافیوں کے علاوہ گرفتار تمام افراد کو رہا کر دیا گیا ہے۔ ان صحافیوں سے زرِ ضمانت کے طور پر 100 ملین تومان (30 ہزار امریکی ڈالر) جمع کرانے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
ان چاروں صحافی خواتین کو صوبہ گیلان کے سب سے بڑے شہر رشت کے قریب قائم لکن کے قید خانے میں رکھا گیا ہے۔ ان کے اہل خانہ اور وکلا کو قید رکھنے کی وجہ تک نہیں بتائی گئی۔
جواہری، مزدری اور سمیع آن لائن میڈیا کے لیے کام کرتی ہیں جب کہ لگرادی گیلان ماہانہ رسالے کی ایڈیٹر ہیں۔
دریں اثنا 25 دسمبر کو ایون قید خانے کے اہلکاروں نے صحافی اور انسانی حقوق کی سرگرم کارکن نرگس محمدی پر تشدد بھی کیا تھا۔ ان کے ساتھ یہ بدسلوکی اس وقت ہوئی جب وہ قید خانے کے ڈائریکٹر کے دفتر میں اپنی وکیل کے ساتھ گفتگو کر رہی تھیں۔