میانمار میں جسے عمومی طور پر برما کہا جاتا ہے ایک اعلیٰ حکومتی عہدیدار نے کہا ہے کہ وہ ریاست راکین میں مسلم اکثریتی آبادی والے علاقوں ماؤنگدا اور بوتھداؤنگ میں غیر قانونی تعمیرات کو مسمار کرنے جا رہے ہیں جس میں مساجد اور مذہبی درسگاہیں بھی شامل ہیں۔
راکین کے سلامتی اور سرحدی امور کے وزیر کرنل ٹین لِن نے بدھ کو صحافیوں کو بتایا کہ "ہم ایسی تمام مساجد اور دیگر عمارتیں منہدم کرنے پر کام کر رہے ہیں جو کہ قانون کے مطابق اجازت کے ساتھ تعمیر نہیں کی گئیں۔"
وزیر کے ایک کارکن نے وائس آف امریکہ کی برمی سروس کو بنایا کہ لِن یہاں غیرقانونی طور پر تعمیر کی گئی عمارتوں کو گرانے کی مہم کی قیادت کر رہے ہیں۔
ٹین لِن کو حال ہی میں آنگ سان سوچی نے وزیر مقرر کیا تھا۔
حکام کے مطابق ماؤنگدا میں ایک اندازے کے مطابق 2270 غیر قانونی عمارتیں ہیں جن میں نو مساجد اور مسلمانوں کے 24 مدارس شامل ہیں جب کہ بوتھداؤنگ میں تین مساجد اور 11 مدرسوں سمیت 1056 غیر قانونی تعمیرات واقع ہیں۔
میانمار کی ریاست راکین اس ملک کی پسماندہ ترین ریاست ہے جس میں تقریباً ایک لاکھ 25 ہزار روہنگیا مسلمان آباد ہیں اور ان کی اکثریت 2012ء میں بدھ مت کے پیروکاروں اور مسلمانوں کے درمیان نسلی فسادات کے بعد سے عارضی کیمپوں میں رہ رہی ہے۔
اس نسلی اقلیتی فرقے کو ایک عرصے سے امتیازی سلوک کا سامنا رہا ہے اور میانمار انھیں بنگلہ دیش سے آنے والے غیر قانونی تارکین وطن قراردیتا ہے اور اپنا شہری تسلیم نہیں کرتا۔ جب کہ بہت سے روہنگیا خاندان کئی نسلوں سےوہاں آباد ہیں۔
1962ء میں میانمار میں پہلی مرتبہ فوج کے اقتدار میں آنے کے بعد سے وہاں مساجد اور دینی مدارس کی تعمیر سے منع کر دیا گیا تھا۔
عمارتوں بشمول مذہبی عبادت گاہوں کو مسمار کرنے کا فیصلہ ایک ایسے وقت سامنے آیا ہے جب میانمار کی وزیر خارجہ آنگ سان سوچی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرنے جا رہی ہیں۔
اس سے قبل امریکہ میں انھوں نے صدر براک اوباما سے ملاقات کی تھی جس میں صدر نے میانمار پر عائد اقتصادی پابندیوں کو اس ملک کی طرف سے "قابل قدر سماجی اور سیاسی اصلاحات" کی بنا پر ہٹانے پر اتفاق کیا تھا۔
اوباما کے اس فیصلے کو انسانی حقوق کی تنظیموں کی طرف سے یہ کہہ کر نشانہ بنایا گیا کہ میانمار کی حکومت اب بھی روہنگیا مسلمانوں کے مسئلے پر توجہ دینے میں ناکام رہی ہے۔
میانمار میں مسلمانوں کے ایک راہنما یو آئی لوِن نے، جو کہ اقوام متحدہ کے سابق سیکرٹری جنرل کوفی عنان کی طرف سے روہنگیا کے تنازع کے تحقیقاتی کمشین کے رکن بھی ہیں، وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اس تازہ فیصلے سے مسلمان آبادی میں خاصی تشویش پائی جاتی ہے اور انھوں نے مختلف عہدیداروں سے ملاقاتیں بھی کی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ"مسلمان راہنماؤں نے مذہبی امور کے وزیر سے ملاقات کی بھی کوشش کی تھی۔ قانون کے مطابق یہاں مذہبی آزادی ہے اور مذہبی مقامات کو ان کی جگہ پر رکھنے اور ان کی بحالی کی بھی اجازت ہونی چاہیے۔"