ایک نئی تحقیق میں سامنے آیا ہے کہ دنیا بھر میں بچوں کے لیے فارمولا دودھ یا دیگر فارمولا فوڈ کے حوالے سے اشتہارات میں جو دعوے کیے جاتے ہیں اس کے مصدقہ ہونے کے سائنسی شواہد موجود نہیں ہیں۔
جمعرات کو سامنے آنے والی تحقیق میں کہا گیا ہے کہ اشتہارات میں کیے گئے دعوؤں کی سائنسی طور پر تصدیق نہیں کی گئی، صرف چند مصنوعات کے کلینکل ٹرائل موجود ہیں جن کے لیے فنڈنگ فارمولا دودھ بنانے والی کمپنیوں نے ہی دی تھی۔
خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق یہ تحقیق ایک ایسے موقع پر سامنے آئی ہے جب ایک ہفتہ قبل ہی ڈاکٹروں اور سائنس دانوں نے مطالبہ کیا ہے کہ بچوں کا فارمولا دودھ اور فارمولا فوڈ تیار کرنے والے 55 ارب ڈالر کی انڈسٹری کے خلاف ریگولیٹری کریک ڈاؤن کیا جائے۔
ان کمپنیوں پر الزام ہے کہ یہ مارکیٹنگ کے ذریعے ماؤں کی حوصلہ شکنی کر رہی ہیں کہ بچوں کو اپنے دُودھ کے بجائے فارمولا دودھ استعمال کریں۔
ماہرینِ صحت نو مولود کے لیے کئی ماہ تک ماں کا دودھ ہی تجویز کرتے ہیں کیوں بچے کی صحت کے لیے اس دودھ میں بے پناہ فوائد ہوتے ہیں۔
عالمی ادارۂ صحت (ڈبلیو ایچ او) اور امریکہ کے سینٹرز فار ڈیزز کنٹرول اینڈ پریوینشن (سی ڈی سی) نو مولود کے لیے پیدائش کے بعد ابتدائی چھ ماہ میں ماں کا دودھ لازمی قرار دیتے ہیں۔
ڈبلیو ایچ او کے مطابق دنیا بھر میں پیدا ہونے والے نصف بچوں کے لیے اس تجویز پر عمل نہیں کیا جاتا۔
برطانیہ میں امپیریل کالج لندن سے وابستہ لیکچرار اور اس نئی ریسرچ کے مصنف ڈینئل مونبلیت کا کہنا ہے کہ محققین بچوں کے فارمولا دودھ یا فارمولا فوڈ کے خلاف کسی بھی قسم کے جنگ کا اعلان نہیں کر رہے۔ یہ ان ماؤں جو بچوں کو دودھ نہیں پلا سکتیں یا نہیں پلانا چاہتیں کے لیے ایک آپشن ہونا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ محققین ان فارمولا دودھ اور خوراک کے حوالے سے اشتہارات میں کیے گئے نامناسب دعوؤں کے خلاف ہیں۔ ان اشتہارات میں ایسے دعوے کیے جاتے ہیں جس کے لیے ٹھوس ثبوت موجود نہیں ہے۔
ڈینئل مونبلیت اور محققین کے ایک بین الاقوامی گروپ نے دنیا کے 15 ممالک میں فارمولا دودھ اور خوراک بنانے والی کمپنیوں کی ویب سائٹس پر موجود 608 مصنوعات کے حوالے سے کیے گئے دعوؤں کا مطالعہ کیا۔
جن ممالک میں فارمولا دودھ یا فارمولا فوڈ کی مصنوعات کو مطالعے کا حصہ بنایا گیا ہے، ان میں پاکستان، بھارت، سعودی عرب، امریکہ، برطانیہ، روس، آسٹریلیا، کینیڈا، جرمنی، اٹلی، جاپان، ناروے، جنوبی افریقہ، اسپین اور نائیجیریا سمیت 15 ممالک شامل ہیں۔
فارمولا دودھ یا فارمولا فوڈ کے حوالے سے عمومی دعوؤں میں کہا جاتا ہے کہ اس سے بچوں کی ذہنی نشوونما ہوتی ہے جب کہ ان کی مدافعت کا نظام بھی اس سے بہتر ہوتا ہے اور سب سے عام دعویٰ بچوں کے تیزی سے بڑھنے کا کیا جاتا ہے۔
برٹش میڈیکل ایسوسی ایشن کے جرنل ’بی این جے‘ میں شائع ہونے والے مطالعے میں کہا گیا ہے کہ ان مصنوعات میں سے نصف میں صحت کے حوالے سے شامل جز کے دعوے حقیقت کے قریب نہیں ہیں۔
مطالعے میں مزید کہا گیا ہے کہ 75 فی صد مصنوعات کے حوالے سے کیے گئے دعوؤں کے سائنسی شواہد بھی موجود نہیں ہیں۔
جن مصنوعات کے لیے سائنسی حوالہ جات دیے بھی گئے ہیں، وہ آرا پر مبنی مضامین یا جانوروں پر تحقیق کے ہیں۔
مطالعے کے مطابق ان مصنوعات میں صرف 14 فی صد ایسی ہیں جن کے انسانوں پر کلینکل ٹرائل کیے گئے ہیں جب کہ ان کے حوالے سے بھی مکمل اعداد و شمار دستیاب نہیں ہیں۔
اس مطالعے میں یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ جن مصنوعات کے حوالے سے کلینکل ٹرائل ہوئے ہیں ان میں بھی 90 فی صد کے لیے فنڈنگ فارمولا دودھ یا فارمولا فوڈ بنانے والی کمپنیوں نے ہی کی تھی۔
اس خبر میں خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ سے معلومات شامل کی گئی ہیں۔