رسائی کے لنکس

ایم کیو ایم کا کابینہ سے علیحدگی کا اعلان


فائل فوٹو
فائل فوٹو

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی وفاقی حکومت میں اتحادی جماعت متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے کنوینر ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے وفاقی کابینہ سے مستعفی ہونے کا اعلان کیا ہے۔

خالد مقبول صدیقی کا کہنا ہے کہ کراچی کے مسائل حل نہ ہونے کے باعث ان کا کابینہ میں رہنا بے سود ہے۔ تاہم متحدہ قومی موومنٹ وفاق میں تحریک انصاف کا ساتھ بدستور دیتی رہے گی۔

کراچی میں دیگر رہنماؤں کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی وفاقی حکومت سے متحدہ قومی موومنٹ کو یہ توقع تھی کہ وہ ملک کے سب سے بڑے شہر اور معاشی مرکز کراچی کے مسائل حل کرنے میں اپنا کردار ادا کرے گی تاہم ڈیڑھ سال گزرنے کے باوجود بھی ان کی توقعات پوری نہیں ہوئیں۔

ان کے بقول انہیں ایسا لگتا ہے کہ اب ان کا کابینہ میں بیٹھے رہنا بے سود ہے۔

ایم کیو ایم پاکستان کے سربراہ کا کہنا تھا کہ ان کے پاس وزارت ہونے سے بہت سے سوالات جنم لیں گے اس لیے انہوں نے وزارت سے الگ ہونے کا فیصلہ کیا ہے۔

حکومت سے اتحاد کا ذکر کرتے ہوئے ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے واضح کیا کہ ان کی جماعت نے حکومت کے سامنے عوامی مسائل کے نکات رکھے لیکن اس عرصے کے دوران جو بھی پیش رفت ہوئی وہ کاغذ تک ہی محدود رہی۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ کراچی کے مسائل کے حل کے لیے حکومت سے مطالبات کرتے آئے ہیں لیکن کراچی کو ایک ارب روپے دینے میں بھی انتہائی کٹھن مراحل سے گزرنا پڑ رہا ہے۔

ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے مزید کہا کہ ڈیڑھ سال کا عرصہ کم نہیں ہوتا پہلے ہم سمجھتے آئے تھے تحریک انصاف کو تجربے کی کمی کا سامنا ہے لیکن اب ایسا لگتا ہے کہ سنجیدگی کی بھی کمی ہے اور ایسے میں وفاقی کابینہ میں میرا موجود رہنا مناسب نہیں۔

ایم کیو ایم کے رہنما کا کہنا تھا کہ سندھ کے شہری علاقوں سے بدستور نا انصافی کی جا رہی ہے۔

وفاقی کابینہ میں ایم کیو ایم کی کتنی وزارتیں ہیں؟

متحدہ قومی موومنٹ کے کنوینر ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی وفاقی کابینہ میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کے وزیر تھے جبکہ ان ہی کی جماعت سے تعلق رکھنے والے بیرسٹر فروغ نسیم وفاقی وزیر قانون ہیں۔

ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے اپنی وزارت چھوڑنے کا اعلان کرتے ہوئے واضح نہیں کیا کہ ان کی جماعت کے دوسرے وزیر بیرسٹر فروغ نسیم بھی کابینہ سے مستعفی ہوں گے یا نہیں۔

ایم کیو ایم کے رہنما کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف کے ساتھ اتحادی حکومت میں شامل ہونے اور وفاقی کابینہ کا حصہ بننے کے موقع پر بیرسٹر فروغ نسیم کا نام ان کی جماعت نے دیا ہی نہیں تھا۔ اسی لیے ایم کیو ایم یہ مطالبہ کرتی آئی ہے کہ انہیں وفاقی کابینہ میں مزید نمائندگی دی جائے۔

کیا یہ پیپلزپارٹی کی پیشکش کا جواب ہے؟

واضح رہے کہ چند روز قبل پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے متحدہ قومی موومنٹ کو یہ پیشکش کی تھی کہ وہ عمران خان کی حکومت کو گھر بھیجنے میں اپنا کردار ادا کرے۔ وفاقی حکومت سے تعاون ختم کرے تو انہیں سندھ کابینہ میں وزارتیں دی جا سکتی ہیں۔

دوسری جانب ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے واضح کیا کہ اس پیشکش کا ان کے استعفے کے اعلان سے کوئی تعلق نہیں۔ ایم کیو ایم بدستور وفاق میں پاکستان تحریک انصاف کا ساتھ دیتی رہے گی۔

'خالد مقبول صدیقی نے استعفیٰ حکومت کو نہیں بھیجا'

وفاقی وزیر برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کی جانب سے وزارت چھوڑنے کے اعلان پر رد عمل دیتے ہوئے وزیر اعظم کی معاون خصوصی برائے اطلاعات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کا کہنا تھا کہ خالد مقبول صدیقی نے اپنا استعفیٰ براہ راست حکومت کو اب تک نہیں بھیجا۔

نجی ٹیلی ویژن جیو نیوز سے ٹیلی فون پر بات کرتے ہوئے فردوس عاشق اعوان نے کہا کہ وزیر اعظم عمران خان کا وژن ہے کہ کراچی کو دنیا کے ترقی یافتہ شہروں کی فہرست میں شامل کیا جائے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ کراچی کے ترقیاتی کاموں کے لیے فنڈز اجرا تعطل کا شکار ضرور ہوا لیکن اس سے انکار نہیں کیا گیا۔

وزیر اعظم کی معاون خصوصی کے بقول اس تعطل کی وجہ ملک کی معاشی حالت تھی۔

ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کا کہنا ہے کہ چونکہ اب ملک معاشی طور پر استحکام کی جانب بڑھ رہا ہے تو حکومت کراچی کے مسائل کے حل کے لیے اپنا بھر پور کردار ادا کرے گی۔

واضح رہے کہ تحریک انصاف قومی اسمبلی میں 156 نشستوں کے ساتھ اکثریت رکھنے والی جماعت ہے۔ جس کے ساتھ اتحادیوں میں متحدہ قومی موومنٹ کے 7 ارکان، پاکستان مسلم لیگ (ق) کے 5، بلوچستان عوامی پارٹی کے بھی 5، بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) کے 4، گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کے 3 ارکان، جبکہ عوامی مسلم لیگ، جمہوری وطن پارٹی کے ایک ایک رکن اور دو آزاد ارکان اسمبلی بھی شامل ہیں۔

تحریک انصاف کی حکومت کے اتحادی ارکان کی کل نشستیں 182 بنتی ہیں جب کہ حکومت کو اکثریت برقرار رکھنے کے لیے 172 ارکان کی حمایت ضروری ہے۔

خیال رہے کہ متحدہ قومی موومنٹ کے قومی اسمبلی میں سات ارکان ہیں جن میں سے چھ عمومی نشستوں پر منتخب ہوئے تھے جب کہ ایک کشور زہر خواتین کی مخصوص نشستوں پر رکن اسمبلی ہیں۔ اسی طرح پانچ سینیٹرز ہیں جن میں سے سینیٹر فروغ نسیم وفاقی کابینہ میں وزیر قانون کے طور پر شامل ہیں جب کہ خالد مقبول صدیقی بھی وفاقی وزیر تھے جنہوں نے وزارت چھوڑ دی ہے۔

کیا بیرسٹر فروغ نسیم بھی استعفی دیں گے؟

ایم کیو ایم کے کنوینر کی جانب سے استعفے کے اعلان کے بعد اسی جماعت سے تعلق رکھنے والے وفاقی وزیر برائے قانون و انصاف بیرسٹر فروغ نسیم نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ انہیں ان کی پارٹی کی جانب سے استعفے کی کوئی ہدایت نہیں ملی۔

اس سوال پر کہ اگر آپ کو استعفے کی ہدایت ملی تو آپ کا کیا رد عمل ہوگا؟ ان کا کہنا تھا کہ وہ وہی فیصلہ کریں گے جو ملک کے مفاد میں بہتر ہوگا۔

ان کے بقول انہیں یقین ہے کہ ان کی جماعت بھی ایسا کوئی فیصلہ نہیں کرے گی جس سے ملکی مفاد کو ٹھیس پہنچے۔ تاہم انہوں نے اس کی وضاحت نہیں کی کہ ان کے وزیر قانون برقرار رہنے میں کیا ملکی مفاد پوشیدہ ہے۔

وفاقی وزیر قانون و انصاف بیرسٹر فروغ نسیم کا کہنا تھا کہ میڈیا میں خواہ مخواہ ان کے بارے میں مختلف چہ مگوئیاں کی جا رہی ہیں۔

یاد رہے کہ وفاقی وزیر قانون نے اپنے منصب سے استعفی دے کر سپریم کورٹ میں آرمی چیف کے عہدے کی مدت میں اضافے کے معاملے پر دائر آئینی درخواست میں چیف آف آرمی اسٹاف کی پیروی کی تھی جس کے بعد انہیں دوبارہ وزیر قانون بنا دیا گیا تھا۔

سیاسی مبصرین کی رائے کیا ہے؟

کئی سیاسی مبصرین متحدہ قومی موومنٹ کے رہنما ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کی جانب سے کابینہ سے استعفے کے اعلان کو علامتی احتجاج قرار دے رہے ہیں۔

صحافی مظہر عباس کے مطابق فی الحال ایسی کوئی صورت حال نظر نہیں آتی جس میں یہ پیش گوئی کی جائے کہ ایم کیو ایم حکومت سے الگ ہو رہی ہے تاہم متحدہ قومی موومنٹ اپنے مطالبات منوانے کے لیے بھر پور کوشش کر رہی ہے۔

ان کے بقول ابھی دیکھنا یہ بھی ہے کہ حالات کیا رخ اختیار کرتے ہیں۔

ان کے خیال میں ایم کیو ایم کے ایسے کئی مطالبات ہیں جنہیں تسلیم کرنا وفاقی حکومت کے بس میں بھی نہیں اور ایسا لگتا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان ایم کیو ایم کے تحفظات کو دور کرنے کے لیے پارٹی رہنماؤں سے خود رابطہ کریں گے۔

واضح رہے کہ متحدہ قومی موومنٹ جہاں ایک جانب کراچی کے ترقیاتی کاموں کے لیے وفاقی حکومت کی جانب سے براہ راست فنڈز کے اجرا کا مطالبہ کرتی آئی ہے وہیں کراچی میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ہاتھوں اپنے سیل شدہ سیاسی دفاتر کو کھولنے اور زیر حراست کارکنوں کی رہائی کے مطالبات بھی تواتر سے کرتی رہی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

XS
SM
MD
LG