عراق میں کئی ماہ کے سیاسی تعطل کے بعد بالآخر دسمبر میں شیعہ اتحاد کی نئی حکومت قائم ہوئی۔ حکومت کی تشکیل کے لیے شیعہ اور سنی پارلیمانی اتحادوں کے درمیان سمجھوتے میں عراق کے ایک شیعہ لیڈر مقتدی الصدر نے اہم کردار ادا کیاجو گذشتہ کئی برسوں سے بیرون ملک خود ساختہ جلاوطنی کی زندگی گذار رہے تھے۔ ان کی ملیشیا نے جنگ کے دوران امریکی فوج کے خلاف لڑائی میں حصہ لیا تھا۔کئی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ لیکن نئی حکومت کے قیام کے بعد ان کی وطن واپسی عراق کی سیاسی صورت حال پر اثر انداز ہوسکتی ہے۔
مقتدی الصدر جب وطن واپس پہنچے تو ان کے کئی سو حمامیوں نے نجف میں ان کا استقبال کیا، جہاں انہوں نے ایک مزار پر حاضری دی۔ ان کی آمد پر شہر کی سڑکوں جشن بھی منایا گیا ۔
ایک رہائشی شیخ عبدالرحمن کا کہنا تھا کہ ہم مقتدا الصدر کو چار سال کی جلاوطنی کے بعد عراق واپس آنے پر خوش آمدید کہتے ہیں۔اور ہم عراقیوں سے گزارش کرتے ہیں کہ وہ حکومت کا ساتھ دیں۔
الصدر اور ان کی مہدی فوج 2003ء میں عراق پر حملے کے بعد امریکہ کے اہم مخالف بن کر سامنے آئی تھی۔2004ءمیں مقتدی الصدر نے امریکی فوج کے خلاف دو با بغاوت برپا کرنے کی کوشش کی تھی ۔ وہ چاہتے تھے کہ امریکہ جلد از جلد عراق سے اپنی فوج نکالے۔
الصدر کی غیر موجودگی میں ان کی سیاسی تحریک کے نمائندے پچھلے سال عراق میں ہونے والے پارلیمانی انتخابات میں بھی نمایاں رہے اور 325 نشستوں میں سے 39 نشستیں جیتنے میں کامیاب ہوئے۔ مقتدی الصدر کے حامیوں نے وزیر اعظم نوری المالکی کی حمایت بھی کی جس کے بدلے میں انہیں حکومت میں شامل ہونے کا موقع دیا گیا۔
قعباد طالبانی خود مختار کرد علاقے کے ایک نمائندے ہیں۔ ان کا کہناتھا کہ میں سمجھتا ہو ں کے ایسے لوگوں کا عراق میں موجود ہونا بہت ضروری ہے، جو عراق میں دلچسپی رکھتے ہوں، عراق کے لیے کام کرتے ہوں اور جنہیں عراق میں لیڈر مانا جاتا ہے۔ تاکہ وہ یہیں سے اپنا کام جاری رکھ سکیں۔
منال عمر کا تعلق امریکی تھنک ٹینک یوایس انسٹی ٹیوٹ آف پیس سے ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ عراق میں الصدر کی موجودگی کے نتیجے میں ممکن ہے کہ عراق کی سیاسی جماعتوں اور لیڈروں کے علاوہ امریکہ کے ساتھ بھی ان کے تعلقات میں کچھ پختگی آئے۔ ہمیں لازمی طور پر کسی نہ کسی قسم کے مذاکرات کے ذریعے ان کے ساتھ تعلقات درست رکھنے ہونگے ۔
امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان پی جے کرولی کا کہنا ہے کہ الصدر مارچ 2010ء میں عراق میں ہونے والے پارلیمانی انتخابات میں کچھ نشستیں حاصل کرنے والی پارٹی کے سربراہ ہیں۔ ان کی واپسی ان کا اور عراقی حکومت کا معاملہ ہے۔
منال عمر کہتی ہیں کہ واشنگٹن اور بغداد کے حکام کو عراق میں امریکی فوج کے نئے کردار کے بارے میں الصدر کی پارٹی کو کچھ یقین دہانی کرانی چاہیے۔
ان کا خیال ہے کہ الصدر کی تحریک کے نمائندوں کےلیے یہ جاننا ضروری ہے کہ امریکہ عراق میں صرف تربیت اور سہارا دینے کےلیے موجود ہے۔ لڑنے کےلیے نہیں۔ میرا خیال ہے کہ جیسے جیسے لوگوں کو یہ اندازہ ہوتا ہے کہ امریکی فوج کی تعداد اب پہلے کی نسبت بہت کم ہے، اور وہ صرف عراقی فوج اور پولیس کو تربیت اور سہارا دینے کے لیے ہی عراق میں موجود ہیں، تو لوگوں کی مخالفت کم ہوتی جائے گی۔
اوباما انتظامیہ 2011ءکے اختتام تک تمام امریکی فوجی عراق سے ہٹا نے کا ارادہ رکھتی ہے ۔