رسائی کے لنکس

عراق سے امریکی فوج کا انخلا اور پارلیمانی انتخابات


یہ انتخابات عراق میں سیاسی نظام کے ارتقا کی جانب ایک اہم قدم ہیں۔ لیکن یہ قدم عراق کو آگے کی طرف لے جائے گا یا پیچھے کی جانب، یہ وہ سوال ہے جس کا جواب عراق اور امریکہ دونوں کے لیے بہت اہم ہے۔

اس سال کے آخر میں عراق سے امریکہ کے لڑاکا فوجیوں کی واپسی کے تناظر میں، اتوار کے روز ہونے والے پارلیمانی انتخابات اور زیادہ اہم ہوگئے ہیں۔ یہ انتخابات عراق میں سیاسی نظام کے ارتقا کی جانب ایک اہم قدم ہیں۔ لیکن یہ قدم عراق کو آگے کی طرف لے جائے گا یا پیچھے کی جانب، یہ وہ سوال ہے جس کا جواب عراق اور امریکہ دونوں کے لیے بہت اہم ہے۔

بمباری کے کچھ نئے واقعات اور فرقہ وارانہ کشیدگی کے باوجود، یہ امید کی جا رہی ہے کہ عراق میں انتخابات بد عنوانیوں سے پاک اور نسبتاً پر سکون ہوں گے۔لیکن کیا سیاسی دھڑ ے جن کی تقسیم بڑی حد تک فرقہ وارانہ یا نسل کی بنیاد پر ہوئی ہے، ملک کی نوخیز جمہوریت کو مضبوط بنانے کے لیے ایک دوسرے کا ساتھ دیں گے یا ملک پھر دشمنی اور تشدد کے پرانے ڈھرّے پر چل پڑے گا؟ عراق میں آج کل جو اشارے مل رہے ہیں وہ مِلے جُلے ہیں۔

عراق کے لیے سابق ڈپٹی نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر، میغان او سلیوان کہتی ہیں کہ 2005ء کے مقابلے میں آج کا انتخابی میدان کہیں زیادہ متنوع ہے۔ ان کاکہنا ہے کہ’’اگر آپ 2005ء کی سیاسی پارٹیوں کا موازنہ آج کی سیاسی پارٹیوں سے کریں تو آپ کو کچھ مثبت چیزیں نظر آئیں گی ۔ اب ایسی پارٹیاں نہیں ہیں جو خالصتاً فرقہ وارانہ ہوں۔ پچھلے دو انتخابات میں صرف ایک بڑی شیعہ پارٹی تھی، اب کئی شیعہ پارٹیاں میدان میں ہیں۔ اب ایک کے بجائے دو کردش پارٹیاں ہیں اور کئی سُنی پارٹیاں میدان میں ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اب ووٹ بہت سی پارٹیوں میں تقسیم ہوں گے‘‘۔

نیشنل سکیورٹی کونسل میں عراق کے ڈائریکٹر چارلز ڈیون کہتے ہیں کہ عراقی ووٹروں میں اب یہ رجحان پیدا ہو رہا ہے کہ وہ خود محض شیعہ ، سنی یا کُر دنہ سمجھیں۔ ان کے مطابق’’عراق میں فرقہ وارانہ تشدد تو ہمیشہ موجود رہا ہے اور رہے گا۔ اس سے مفر ممکن نہیں۔حوصلہ افزا بات یہ ہے کہ 2009ء کے صوبائی انتخابات کے بعد، لوگوں نے فرقہ وارانہ سیاست سے ہٹ کر اب یہ سوچنا شروع کر دیا ہے کہ کون سا امیدوار انہیں سہولتیں، بجلی، پانی اور سکیورٹی فراہم کر سکتا ہے‘‘ ۔

لیکن پرائیویٹ انٹیلی جنس فرم سٹراٹفور کے تجزیہ کار کامران بخاری کہتے ہیں کہ عراق کی سیاست میں نسل اور فرقے کی بنیاد پر شناخت اب بھی بہت اہم ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ لوگ اب ایسی حکومت چاہتے ہیں جو ملک کا نظام اچھی طرح چلائے لیکن بنیادی حقیقت یہی ہے کہ شیعہ ، سنی اور کُرد، فرقہ وارانہ مفادات سے بلند ہو کر نہیں سوچ سکتے۔

فرقہ وارانہ اور نسلی کشیدگی میں اس وقت اضافہ ہو گیا جب ایک پارلیمانی کمیٹی نے جس پر شیعوں کا غلبہ ہے، 511 سنّی امیدواروں کو یہ کہہ کر انتخاب میں شرکت کے لیئے نا اہل قرار دے دیا کہ مبینہ طور پر ان کا صدام حسین کی کالعدم بعث پارٹی سے تعلق رہ چکا ہے۔وزیر اعظم نوری المالکی نے جو شیعہ ہیں اور جو خود کو غیر فرقہ وارانہ قوم پرست امیدوار کی حیثیت سے پیش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، اس اقدام کی تائید کر دی۔ سنیوں کی نظر میں یہ شیعوں کی کھلم کھلا زیادتی ہے لیکن وہ اس بار، 2005ء کی طرح انتخابات کا بائیکاٹ نہیں کریں گے ۔

انتخاب کے نتائج پر ووٹنگ کا ایک نیا سسٹم بھی اثر انداز ہو سکتا ہے۔ 2005ء میں عراق میں ایک closed-list سسٹم استعمال کیا گیا تھا جس میں ووٹروں کو مخصوص امیدواروں کو نہیں، بلکہ ایک پارٹی کے حق میں ووٹ ڈالنے کی اجازت تھی۔ اس میں مصلحت یہ تھی کہ امیدواروں کو قتل ہونے سے بچایا جائے ۔ اس بار، عراق میں open-list سسٹم استعمال کیا جا رہا ہے جس میں ووٹر یا تو کسی پارٹی کو یا کسی امیدوار اور اس کی پارٹی کو ووٹ دے سکتے ہیں۔

انتخاب کے بارے میں صرف ایک ہی پیشگوئی سننے میں آ رہی ہے کہ کسی ایک پارٹی کو اکثریت حاصل نہیں ہو گی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ بڑے پیمانے پر سیاسی جوڑ توڑ اور سودے بازی ہو گی۔ چارلز ڈیون کہتے ہیں کہ عراق اور امریکہ کے لیے یہ وقت بہت خطرناک ہو گا۔ انھوں نے کہا کہ’’انتخابات کے بعد کیا ہوگا، خاص طور سے عراق کی حکومت کی تشکیل کس طرح ہوگی؟ آخری بار 2005ء میں یہ طے کرنے میں پانچ مہینے لگ گئے تھے۔ یہ سخت کشیدگی کا وقت ہو گا۔ یہی وہ وقت ہو گا جب امریکہ کو ، عراقی حکومت کے ساتھ مل کر بہت سے فیصلے کرنے ہوں گے، کہ امریکی فوجوں کی سطح کیا ہو گی اور ان کی واپسی کا شیڈول کیا ہو گا‘‘۔

امریکہ کی لڑاکا فوجیں اگست کے آخر تک عراق سے واپس نکال لی جائیں گی۔ اگر سیاسی مذاکرات طول پکڑ گئے تو پھر اس ٹائم ٹیبل پر عمل کرنے میں دشواریاں پیدا ہو سکتی ہیں۔ لیکن اوباما انتظامیہ مصر ہے کہ سوائے اس کے کہ کوئی بڑی آفت آ جائے، فوجوں کی واپسی منصوبے کے مطابق جاری رہے گی۔

XS
SM
MD
LG